حضرت مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا بشارت علی خان آفریدی ارمان قادری بن مولوی امداد حسین خان بن اکبر آباد (انڈیا) میں ۱۹۰۱ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
آپ خود لکھتے ہیں : ’’فارغ التحصیل ہو چکا تھا‘‘۔ (حیات قدسی ) اس سے یقین ہو جاتا ہے ۔کہ آپ فارغ التحصیل عالم تھے لیکن تفصیلات کا علم آپ کی تعلیم یافتہ اولاد کو بھی نہیں ہے۔ آپ کی علمیت شاعری اور حیات قدسی (تصنیف)سے آشکارا ہے ۔ قادر الکلام شاعر علامہ سیماب اکبر آبادی ثم کراچی آپ کے شاعری میں استاد تھے۔
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ قادر یہ میں قدوۃ السالکین حضوت مولانا بہاوٗ الدین بنگلوری ؒ دزبار شریف غوثیہ مرشد آباد (انڈیا) سے اپنے والد محترم کے ہمراہ دست بیعت ہوئے۔ آپ کو اپنے مرشد سے والہانہ محبت تھی اور یہ محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ان کے حالات سے متعلق کتاب ’’حیات قدسی‘‘ تحریر فرمائی۔
حضرت بہاء الدین ، سلطان میسور ٹیپو سلطان شہید کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ قادریہ میں دربار قادریہ بغداد شریف (عراق) کے سجادہ نشین حضرت پیر سید مصطفی گیلانی ؒ سے بیعت کا شرف رکھتے تھے۔
شادی واولاد:
انہوں نے آگرہ (اکبرآباد )میں آمنہ بیگم (متونی ۱۹۸۰ئ) سے شادی کی ۔ جس کے درج ذیل اولاد تولد ہوئی۔
۱۔ عائشہ صدیقہ مرحومہ
۲۔ محفوظ حسین خان مرحوم
۳۔ تحمل حسین مرحوم
۴۔ تفضل حسین خان سابق وائس پریذیڈنٹ حبیب بنک لمیٹڈ (گلشن اقبال کراچی)
۵۔ نفیسہ طاہرہ (شریف آباد )
۶۔ ڈاکٹر صدیقہ ارمان سابق چیئرپرسن شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی
۷۔ مزمل آفریدی
۸۔ ملک خالد فریدی (امریکہ )
۹۔ عفیفہ خاتون ایم۔اے (متونی۲۰۰۳ئ)(بروایت ڈاکٹر صدیقہ صاحبہ )
درج ذیل کتب ان کی یادگار ہیں:
تصنیف و تالیف:
حیات قدسی : اپنے پیر و مرشد حضرت بہاوالدین قادری کے حالات و واقعات تحریر کئے لیکن آغاز میں پیری مریدی ، خانقاہ، عرس ، قدم بوسی ، تبرکات وغیرہ کو دلائل علمیہ سے ثابت کیا ہے۔جس سے موصوف کی علمیت واضح ہوتی ہے۔ کراچی سے ۱۹۹۹ء کو آپ کے بیٹے تفصل حسین خان آفریدی نے کتاب شائع کی ۔
٭ ارمان نبی ﷺ(نعتیہ مجموعہ )
مطبوعہ سیرت پبلشرز امروہہ انڈیا ۱۹۵۵ء
٭ سروش سدرہ (نعتیہ مجموعہ)
شمیم بک ایجنسی نیو کراچی ۱۹۸۶ء
٭ صدخلش (غزلیات )
کراچی ۱۹۸۷ء
٭ بادہ امروز(نظمیں )
مرتبہ :ڈاکٹر صدیقہ ارمان کراچی ۱۹۸۹ء
درس وتدریس:
بعد فراغت آپ نے شعیب محمد یہ کالج آگرہ میں بحیثیت لیکچرار ملازمت اختیار کی۔ اور قیام پاکستان تک درس و تدریس سے وابستہ رہے ۔ ۱۹۵۸ء کو پاکستان (کراچی) تشریف لائے اور تاحیات کراچی میں ہی رہے ۔
خطابت :
کراچی میں وہ جوش خطیب و شاعر کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔ میلادالنبیﷺ معراج النبی ﷺ گیارہویں شریف، اور بزرگان دین کے اعراس کے موقعہ پر آپ کا خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا ۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے بھی خطاب کرتے تھے نیز مشاعرہ کی محافل میں بھی تندی سے شرکت فرمایا کرتے تھے ۔
شاعری:
وہ شاعر تھے ۔ حمد ، نعت ، منقبت ، سلام ،غزل تضمین و غیرہ اصناف پر شاعری کی ۔ جن دنوں دارالعلوم امجد یہ کراچی میں مشاعرہ کرتا تھا ان دنوں مولانا آفریدی کی خصوصی شرکت ہوا کرتی تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب (سابقصدر شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی )آپ کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہو ئے لکھتے ہیں : ’’فنی طور پر مولانا بشارت علی خان قادری کی بیشتر نعتیں غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں اگرچہ انہوں نے مخمس اور مسدس بھی لکھے ہیں اور دوسری اصناف کے ذریعے بھی اپنا اظہار کیا ہے۔ جناب ارمان کی نعتوں کے مطالعہ کے بارے میں شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ حضور محمد مصطفیٰ ﷺ تک رسائی حاصل کرنے والو ں میں اس کا نام شامل ہے۔ اپنی نعتوں میں کہیں کہیں وہ اس وادی میں بھی پہنچ گئے ہیں کہ احمد اور احد کے فرق کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ اللہ کی شان رحیمی سے یہی ہے کہ اسے اس لغزش مستانہ پر پیار آیا ہو گا‘‘۔(سروش سدرہ پیش لفظ)
پروفیسر ڈاکٹر صدیقہ لکھتی ہیں :
ارمان صاحب کی منقتبیں ان کے عقائد و نظریات کی بہترین غماز ہیں ۔ اولیاء اتقیاء اوردرویشوں کی زندگی کو انہوں نے حیات مثالی کے طور پر یقین کیا اور اس طرز عمل کو ہی مصائب ومصائب کا نجات دہندہ تصور کیا ۔ چنانچہ خود بھی ہمیشہ اس راہ کے متلاشی رہے اور آلائش دنیا سے حتی المقدور خود کو گریزاں بھی رکھا اور اسی کو وسیلہ عرفان جانا۔
عجب انسان ہے ارمان بھی اللہ رے استغناء
کہ ہے دنیا میں اور آلودہ دنیا نہیں ہوتا
کونین کے والی امددنی
دارین کے حامی امددنی
امراض کے شانی امددنی
نعمات کے معطی امددنی
یاشیخ اغثنی ، امددنی ، یا شیخ اغثنی امددنی
للہ اغثنی امددنی یا غوث الاعظم امددنی
حضو ر مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خان نوری بریلویؒکے وسال پر بھی ارمان نے منقبت لکھی تھی ۔ وہ تحریک پاکستان کے بھی سپاہی تھے ۔ علماء و مشائخ اہل سنت کے ساتھ آل انڈیا سنی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جدوجہد آزادی میں سر گرم رہے۔ انہوں نے ’’شہیدوں کا کفن ‘‘،’’شہادت ‘‘اور آزادی‘‘جیسی نظمیں لکھ کر مسلمانوں کو قیام پاکستان کے لئے متحرک کیا اور قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستا ن کے لئے بھی کام کیا۔
سر حشر آدمیت آئے گی یہ پیرہن پہنے
اٹھے گی روح آزادی شہیدوں کا کفن پہنے
اک سانس میں پہنچاتی ہے یہ قربت حق میں
اونچی ہے سماوات سے بھی بام شہادت
یہ آزادی ہے جس میں خون کی بھر مار ہوجائے
یہ آزادی ہے جس میں زندگی دشوار ہو جائے
یہ آزادی ہے جس میں جان اک آزاد ہو جائے
یہ آزادی ہے جس میں سانس خود تلوار ہو جائے
’’ایک ہندو پرست سے ‘‘ نظم میں کانگریسی مسلمانوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اے کہ ہے ہندو کی چیل تیرا بام افتخار
اے سگ کوئے بنارس کانگریس کے فضلہ خوار
یہ تری ملت فروشی، یہ ترا جزب رکیک
حریت کے نام پر تو مانگتا پھرتا ہے بھیک
رات دن ہندو پرستی کی چھری ہے بد مال
کھنیچتا ہے قوم مسلم کے تن زندہ کی کھال
قوم کا سارا لہو پی کر بھی دبلا ہی رہا
کانگریس کے در کی مٹی تو نے چاٹی عمر بھر
دیکھ خون حرمت اسلام درپے ہے ترے
تیری خونخواری کسی دن ذبح کر دے گی تجھے
آپ نے ایک نظم قائداعظم محمد علی جناح کی خدمت میں ۱۸،مارچ ۱۹۴۷ء کو ایس ۔ایم ۔اوکالج آگرہ میں سالانہ تقریب کی صدارت کے موقعہ پر سپاس نامہ کے طور پر پیش کی ۔
قائد نامدار آئے ہیں رہبر ذی وقار آئے ہیں
درد رکھتے ہیں دل میں ملت ہمدم وغم گسار آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ نظم آج بھی مزارقائد کے نیچے والے میوزیم ’’نوادرات قائد ‘‘کے ساتھ آویزاں ہے۔ انتقال سے پہلے انہوں نے کراچی کے حالات ، لسانی فسادات کے پیش نظر ’’ہوشیار‘‘نظم لکھی:
اب تراشے جارہے ہیں نسل و قومیت کے بت
آج پھر شیطان پجوائے گا عصبیت کے بت
سومنا تھی ،رام راجی، داہری سیرت کے بت
اور تفریق لسان و رنگ کی لعنت کے بت۔۔۔۔۔۔
ارض پاکستان !ان غارت گروں سے ہوشیار
ہوشیار اے قوم !شوریدہ سروں سے ہوشیار
وصال :
مو لا نا بشارت علی خان ارمان قادری نے ۲، شوال المکرم ۱۴۰۵ھ بمطابق ۲۱، جون ۱۹۸۵ء کو ۸۴سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ حضرت مولانا محمد حسن حقانی نے غالباً نماز جنازہ کی اقتداء فرمائی اور حسن اسکوائر (گلشن اقبال ) کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
پروفیسر ڈاکٹر صدیقہ ارمان صاحبہ کا ممنوں ہوں کہ اپنے والد گرامی قدر کی کتابیں مہیا کیں ۔ جس سے حالات زندگی تحریر کرنے میں آسانی ہوئی]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)