حضرت مولانا فخر الدین لورستانی علیہ الرحمۃ
آپ نے ظاہری علوم کی تحصیل کی ہوئی ہے۔ہمیشہ دل میں یہ تھا کہ تحصیل علوم کے بعد خدائے تعالی کی راہ کے سلوک میں مشغول رہو۔ایک دفعہ مصر کے ایک مدرسہ کے ایک گھر میں رہتے تھے،اور وہاں کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے۔مطالعہ کرتے کرتے تھک گئے۔طبیعت کع بہلانے کے لیے گھر سے باہر نکل آئے۔سلوک کی خواہش ان کے دل میں تازہ ہوگئی۔اپنے دل میں کہنے لگے،آخر ایک دن اس موجودہ بکھیڑے سے باہر نکلنا ہی پڑے گا،وہ آج ہی کا دن ہونا چاہیے۔دوبارہ گھر میں نہ گئے۔گھر کو ویسے ہی کتابوں اور رسالے اسباب کے ساتھ کھلے دروازہ کو چھوڑ دیا،اور شیخ شی اللہ رحمتہ اللہ کی خدمت میں کہ اس وقت مصر میں ارشاد کے لیے معین تھے۔گئے اور سلوک میں مشغول ہوئے۔ج تک وہ زندہ رہے،تب تک تو ان کی صحبت میں رہےاور جب وہ دنیا سے رحلت کر گئے،تو کسی کامل مکمل کی طلب میں سفر کیا۔اس وقت میں شیخ محی الدین طوسی کہ امام غزالیؒ کی اولاد میں سے تھے۔پوری شہرت رکھتے تھے،شہر طوس میں رہتے تھے۔ان کی صحبت میں آئے ،لیکن جو کچھ کہ چاہتے تھے۔وہ وہاں نہ پایا۔وہاں سے ایک اجاڑ گاؤں میں اخی علی فتلق شاہ کے فرزندوں کے پاس گئے۔وہاں بھی اپنا مطلب نہ ملا۔جب وہاں سے سفر کیا ،تو اخی علی کے فرزندوں نے کہا کہ ہمارے باپ کے درویشوں میں ابروہ گاؤں میں ایک درویش ہیں،اگر آپ ان کو دیکھیں،تو تعجب نہیں۔دل میں کہنے لگے کہ خراسان کےشیخ وہ اور شیخ زادے یہ ہیں،تو وہ درویش کیا ہوگا،لیکن احتیاطاً ابروہ میں گئے۔جب وہاں پہنچے تو شیخ حافظ ایک بڑے کام کے لیے دوسرے گاؤں میں گئے ہوئے تھے۔انہوں نے وہاں پر اپنی ولایت کے نور سے ان کا آنا معلوم کرلیا،اور اپنے دوستوں سے کہا کہ ہمارا ایک عزیز مہمان آیا ہے۔اپنے مطلب کو حاصل نہ کرکے ابروہ میں گیا۔جب اس کی آنکھ مولانا پر پڑی تو اس مشہور مصرع کو پڑھنے لگے۔
یار درخانہ و ماگر مے گردم
ان کی خدمت میں رہنے لگے ۔جب تک شیخ حافظ زندہ رہے،ان کی صحبت میں رہے۔ان کے ساتھ چلوں میں بیٹھے اور تربیت حاصل کی۔ان کی وفات کے بعد ولایت جام تشریف لے گئے،اور حضرت شیخ الاسلام احمد علیہ الرحمۃ کی مزار مقدسہ کے پڑوس میں چلے کھینچے ہیں،اور جام کے مشائخ کے وقت کے مشائخ میں سے کسی کے ساتھ اس قدر اخلاص نہ تھا۔جس قدر کہ ان کی نسبت تھا۔وہ کہتے ہین کہ حضرت شیخ الاسلام احمد قدس اللہ روحہ کو اپنی تمام اولاد کے ساتھ توجہ بہت ہے۔یہاں تک خواجہ محمد خلوتی سے جو کہ ظاہر میں پریشان سے ہیں،بہت محبت کرتے ہیں۔ہرات کے ایک عالم جو کہ زہد اور تقویٰ میں مشہور تھے،اور سلوک میں بہت کوشش کرتے تھے۔آپ کی خدمت میں آئے تھے۔طلب کا اظہار کیا ۔ان سے آپ نے کہہ دیا کہ ہرات میں جانا چاہیےہر چند اصرار کیا فائدہ نہ ہوا جب ان کے حکم کے مطابق واپس ہوئے اور ہرات میں پہنچے،تو جلد بیمار ہو گئے۔خدا کی رحمت سے جا ملے۔طبیعت میں یوں آتا ہے کہ خر جر اور جام میں سرائے میں کہ فقیر کے والدین سے تعلق رکھتی تھی،اترتے تھے۔میں ان کو پرھ لیتا تھا۔ہنستے تھے اور تعجب کرتے تھے۔آپ کی اس شفقت و محبت کی وجہ سے میرے دل میں اس گروہ کی محبت و ارادت کا بیج بویا گیا،اور اس وقت سے ہر وقت تک بڑھتا جاتا ہے۔مجھے امید ہے کہ انہیں کی محبت پر جیوں اور انہیں کی محبت میں مروں،اور ان کے دوستوں کے زمرہ میں اٹھایا جاؤں۔اللھم احینی مسکینا وامتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المسکینیعنی اے پروردگار ! مجھ کو مسکینوں میں زندہ رکھیو،مسکینوں میں ماریو اور مساکین کے زمرہ میں اٹھائیو۔۸۲۰ہجری کے بعد خراسان سے حرمین شریفین زاد ہما اللہ شرفاً کی زیارت کا ارادہ کیا ۔وہاں سے مصر میں گئے،اور وہیں خد ا کی رحمت میں جا ملے۔آپ کی قبر قرافہ میں ہے۔امام شافعی رضی اللہ عنہ کی قبر کے نزدیک وہاں پر سید فخر الدین مشہور ہیں۔
(نفحاتُ الاُنس)