حضرت خواجہ غلام مر تضیٰ (جد امجدغلام محی الدین قصوری) علیہ الرحمۃ
نام ونسب:حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ بن خواجہ عبد الملک ۔ آپ کا نسب حضرت ابو بکر صدیق سے ملتا ہے۔
تحصیل علم: آپ نے تمام علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تحصیل وتکمیل اپنے والدِ گرامی خواجہ عبد الملک سے فرمائی۔
بیعت وخلافت:آپ ۔۔۔۔
حضرت خواجہ غلام مر تضیٰ (جد امجدغلام محی الدین قصوری) علیہ الرحمۃ
نام ونسب:حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ بن خواجہ عبد الملک ۔ آپ کا نسب حضرت ابو بکر صدیق سے ملتا ہے۔
تحصیل علم: آپ نے تمام علومِ نقلیہ وعقلیہ کی تحصیل وتکمیل اپنے والدِ گرامی خواجہ عبد الملک سے فرمائی۔
بیعت وخلافت:آپ اپنے والد بزرگوارحضرت خواجہ عبد الملک کے جانشین اورخلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص:آپ کے والد خواجہ عبد الملک علوم ظاہری اور باطنی سے آراستہ تھے مگر آپ کے فرزند ارجمند حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ کو اس ضمن میں بڑی شہرت ملی۔
آپ حافظ قرآن ، عالم دین ،محدث ماہر ِ معقولات ہونے کے علاوہ شعراور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے حلقہ درس میں مختلف علوم کے پڑھنے والوں کی تعداد پانچ سو تھی۔
آپ صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے۔
تلامذہ: پنجابی شاعری کے دو عظیم نام پیر وارث شاہ (مصنف ہیر رانجھا) اور صوفی شاعر بلھے شاہ ، حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ کے شاگرد تھے۔
کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے ہیر رانجھا کا قصہ منظوم کیا تو حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ کے پاس لوگوں نے شکایت کی کہ آپ کا شاگر د عشق مجازی میں مبتلا ہو کر ایسی شاعری میں مصروف ہے جس سے آپ کی بدنامی ہوگی۔ آپ نے وارث شاہ کو طلب فرما کر اشعار سنے تو ایک فقرہ میں وہ جامع تبسرہ فرمایا جو اس طرزِ شاعری پر حرف آخر ہے۔
فرمایا: تونے منج کی رسی میں موتی پروئے ہیں۔
آپ کے فرزند خواجہ غلام مصطفیٰ آپ کی جگہ مسندپر متمکن ہوئی۔ آپ بھی علوم ظاہری و با طنی میں درجۂ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔
آپ کی واحد اولاد نرینہ حضرت خواجہ قصوری دائم الحضوری تھے۔
وصال :پنجاب کی سیاسی بد امنی اور مسلمانوں کے تنزل و بے حسی سے بد دل ہو کر آپ نے درس کا انتظام اپنے فرزند حضرت خواجہ غلام مصطفیٰ کے سپرد کیا اور خود پشاور سے ہجرت کر گئے اور وہیں دو سال بعد وفات پائی ۔
سات آٹھ سال بعد آپ کی نعش مبارک پشاور سے قصور لائی جا رہی تھی کہ کاہنا کاچھا کے قریب سکھوں نے تابوت کو خزانہ سمجھتے ہوئے تیز آلات سے صندوق کو کاٹنا چاہا ۔ جب صندوق کھلا تو یہ دیکھ کر سب ہکا بکا رہ گئے کہ آپ کی ایک زخمی ٹانگ سے تازہ خون جاری تھا۔ آپ کی تدفین بڑے قبرستان میں ہوئی۔