حضرت مولانا حافظ کامل دیو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا حافظ محمد کامل بن تکیل دایولب دریائے سندھ کے گوٹھ کانگری ( جو کہ عاقل اور سنہڑی گوٹھوں کے درمیان میں واقع ہے تحصیل و ضلع لاڑکانہ ) مین ۱۸۷۹ء کو تولد ہوئے ۔ جب سات سال کی عمر کو پہنچے تو چیچک کے مرض میں مبتلا ہوئے جس کے سبب آنکھوں کی روشنی ضائع ہو گئی ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے کیا برادر اکبر مولانا خدا بخش دایو کے پاس قرآن مجید حفظکیا۔ اس کے بعد گوٹھ سنہڑی کے مدرسہ میں داخل کیا گیا ۔ مدرسہ کے مدرس و مہتمم مولانا غلام نبی عباسی تھے جو کہ اس گوٹھ کے زمیندار بھی تھے ، ان کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ مدرسہ کے سارے اخراجات وہ خود ادا کرتے تھے ۔
اسی مدرسہ میں مولانا محمد کامل نے درس نظامی مکمل کیا۔ آپ کو علم حاصل کرنے کا جنون تھا، کسی نے نورنگ واہ جانے کا مشورہ دیا۔ وہیں پہنچ کر مالانا میر محمد نورنگی جاگیرانی سے استفادہ کیا اور دستار فضیلت سے مشرف ہوئے۔
بیعت :
فقیر راشدی کا ۲۰۰۳۔۷۔۳ کو لاڑکانہ جانا ہوا وہاں محلہ علی گوہر آباد کے ساکن ماسٹر محمد قاسم سومرو سے ملاقات ہوئی ۔ ان کی عمر تقریبا ۹۰ سال ہے ، وہ اصل میں دو دوسنہری کے رہنے والے ہیں ۔ انہو ں نے بتایا:مولانا کامل اپنے استاد مولانا میر محمد نورنگی سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے ۔ واللہ اعلم ۔ مولانا غلام رسول عباسی مرحوم نے اپنے استاد محترم کے متعلق لکھا ہے کہ مولانا میر محمد سلسلہ قادریہ میں حضرت فقیر فیض محمد صاحب لوڑھے شریف ( تحصیل کنڈیار و ) سے بیعت تھے۔ ( مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء ) بعض کا خیال ہے کہ حافظ کامل درگاہ قادریہ سوئی شریف ( گھوٹکی ) سے روحانی تعلق رکھتے تھے اور بعض نے بتایا کہ مولانا محمد عاقل کے ساتھ درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ حاضری دیتے تھے اور امیر شریعت حاتم وقت حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی ’’مسکین ‘‘کی سخاوت سے بہراندوز ہوتے رہتے تھے۔
درس و تدریس :
مولانا محمد کامل بظاہر نابینا عالم تھے لیکن فہم و فزاست میں اعلیٰ ذہانت و فطانت ، قومی الحافظہ شخصیت کے مالک تھے۔ مستقل مزاج ، صاحب الرائے ، تاریخ پر دسترس اور حالات حاضرہ سے باخبر رہتے تھے ۔ فلسفہ حکمت و منطق میں نام کمایا۔ صرف و نحو کے درس میں شہرت رکھتے تھے۔ ساری زندگی مسجد و مدرسہ تک محدود رہی ، درس و تدریس میں زندگی بسر کی۔ طب اور شاعری سے بھی دلچپسی رکھتے تھے۔
۱۹۱۰ء کو مولانا کامل کے استاد اول مولانا غلام نبی بن خدا بخش عباسی حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ ان کے دل کی آرزو پوری ہوئی وہیں وصال ہوا۔ جس کے سبب مدرسہ سنہڑی میں مسند تددیس خالی تھی اس لئے مدرسہ کے لئے اعلیٰ پائے کے مدرس کی ضرورت تھی ۔ مولانا کامل جب فارغ التحصیل ہو کر اپنے گوٹھ آئے تو انہیں ا س مسند کا اہل سمجھا گیا اور مسند تدریس پیش کی گئی ۔ آپ نے تدریس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم کام کیا کہ مسجد سے مدرسہ اٹھاکر ایک پلاٹ خرید کر دارالعلوم طرز پر قائم کیا اور ہر فن کے لئے جدا جدا مدرس مقرر کئے ۔ دارالعلوم کے تمام اخراجات کے لئے مخلصین و محبین کی ایک کمیٹی بنائی تھی جنہوں نے جانی مالی امداد کے ذریعے دارالعلوم کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ دارالعلوم میں درج ذیل اساتذہ معلم مقرر تھے ۔
عربی کے لئے: مولانا محمد کامل قادری ۔ مولانا محمد اکرم جتوئی
فارسی کے لئے : مولانا عبدالرشید پیرزادہ ۔ مولانا شیر محمد جتوئی ۔ مولانا محمد بچل تونیہ
حفظ و ناظرہ : مولانا حافظ جمال الدین قادری
مدرسہ میں ایک شعبہ ’’بنات ‘‘ کا بھی تھا جس میں لڑکیوں کو ناظرہ و حفظ قرآن کے علاوہ فارسی و فقہی مسائل بھی سکھائے جاتے تھے۔ اس شعبہ کی ناظمہ کے فرائض مولانا کامل کی بیٹی اداکرتی تھی۔
نفاست پسندی :
مولانا ، صاحب تقویٰ تھے، نفاست کا یہ عالم تھا کہ روزانہ لباس کے تین جوڑے استعمال کرتے تھے ۔
۱۔ ایک جوڑا گھر کے کام کاج اور آرام کیلئے
۲۔ درس و تدریس نماز و عبادت کیلئے
۳۔ بیت الخلاء ( باتھ روم ) کیلئے
شاعری :
مولانا شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے ، فارسی گرامر کو طلباء کے لئے آسان بنانے کے لئے نظم تیار کی۔ جس کو طلباء سے لکھوا کر حفظ کرادیا کرتے تھے۔
بعد حمد حق و نعت احمد و آل رسول
بشنو از حافظ مصدر جند باسمع قبول
تلامذہ :
آپ کے شاگردوں میں سے درج ذیل نام معلوم ہو سکے :
٭ مولانا عبدالرشید پیرزادہ
٭ مولانا عبداللہ پیر زادہ
٭ مولانا حافظ جمال الدین قادری
٭ مولوی حافظ نور احمد جاگیرانی
٭ مولانا محمد اکرم جتوئی
٭ مولوی غلام محمد جاگیرانی
٭ مولوی علی محمد سومرو دیوبندی دودائی روڈ لاڑکانہ
[ڈاکٹر غلام علی سانگی ( لاڑکانہ ) کی ڈائری سے ماخوذ ہے۔ ]
سندھ دارالسلام :
بقول مولانا عبدالرشید پیرزادہ ( گوٹھ سنہڑی) کہ مولانا حافظ محمد کامل ( سندھ کو دارالسلام سمجھتے تھے اس لئے ) افغانستان ہجرت کرنے کے مخالف تھے ۔ ان کا موقف تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی حدیث شریف ہے لاھجرۃ بعد الفتھ المکۃ ( بخاری ) یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ اس لئے افغانستان کو ہجرت کرنا ( شرعا) درست نہیں (اور معاشی حوالے سے بھی نہایت خطر ناک عمل ہے) ۔ اس موضوع پر مولانا محمد کامل کا پیر تراب علی شاہ قمبر والے سے بھی مناظرہ ( بحث و مباحثہ ) ہوا تھا۔ ( لاکانو ساہ سیبانو ص ۲۶۸)
حضرت مولانا محمد اسحاق جتوئی ( لاڑکانہ ) فرماتے ہیں : مولانا محمد کامل پرہیز گار بزرگ تھے ، فی سبیل اللہ درس دیتے تھے۔ نحوو صرف کے ماہر استاد تھے، اسی لئے ان کے شاگرد بھی اس فن میں ماہر ثابت ہوئے ہیں ۔ ( ایضا)
اولاد:
مولانا نے ایک شادی کی جس سے دو بیٹے تولد ہوئے ۔
۱۔ حافظ احمد رحمت اللہ
۲۔ محمد نعمت اللہ۔
دونوں بھائیوں نے لاڑکانہ شہر کے محلہ علی گوہر آباد میں سکونت اختیار کی تھی اور سفید مسجد پر قابض تھے اور اعتقادی طور پر دیوبندی وہابی نظر یہ رکھتے تھے۔ دو چار سال ہوئے انتقال کر گئے ہیں۔
وصال :
حافظ محمد کامل نے ۱۷، ربیع الاول ۱۳۵۱ھ بمطابق ۵، مارچ ۱۹۳۲ء کو انتقال کیا۔ آخری آرامگاہ گوٹھ سنہڑی متصل لاڑکانہ میں واقع ہے۔ آپ کے انتقال پر آپ کے استاد نورنگی نے نہایت افسوس کا اظہار کیا اور آپ کو ’’علم کا ذخیرہ ‘‘ سے تعبیر کیا۔ ( وصال کی تاریخ و تفصیل حافظ عبدالرزاق سومرو کے قلمی مضمون سے بذریعہ حافظ عبدالستار لی گئی ، احقر تمام کا مشکور ہے)
مولانا حافظ نور احمد حبیسر (اھسان واھن تحصیل ڈوکری ) کی روایت کے مطابق کہ حافظ صاحب کے انتقال کے بعد ان کے مزار سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آتی تھی ‘‘۔ اس سے معلوم ہواس وہ نام کے فقط کامل نہیں تھے بلکہ حقیقت میں بھی کامل تھے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت )