کاظم علی خاں،مولانا حافظ محمد
نام ونسب:اسمِ گرامی:کاظم علی خان۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:مولانا حافظ کاظم علی خان مولانا محمد اعظم خان بن جناب سعادت یارخان بن جناب محمد سعید اللہ خان بن عبدالرحمن بن یوسف خان قندھاری بن دولت خان بن داؤد خان۔الیٰ آخرہ۔(علیہم الرحمہ)
سیرت وخصائص:سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہوا ملکی نظام درہم برہم ہوگیا جس کی وجہ سے حضرت حافظ کاظم علی خاں سلطنت اودھ سے وابستہ ہوگئے۔ فرض منصبی کی ادائیگی کی اور عظیم کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کے صلہ میں آپ کو سلطنت اودھ سے "شہربدایوں" کا نظم و نسق سپرد کیا گیا۔آپ "بدایوں"کےتحصیلدارتھے۔(اس وقت تحصیلدار کاعہدہ آج کل کے کمشنرکےبرابر ہوتاتھا)دو سوسواروں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی۔آٹھ گاؤں آپ کو ملے تھے جس میں سے دو گاؤں آپ نے اپنے متعلقین کو عطا کردئیے تھے۔ بقیہ چھ گاؤں آپ کی جاگیر میں رہے۔ آپ کی جاگیر مندرجہ ذیل گاؤوں میں تھی:(۱)اسہیت (۲)نہئوڑ (۳)نقی پور (۴)کر تولی (۵)مرزا پور (۶)نگلا۔یہ گاؤں معافی دو امی تھے اور نسلاً در نسلاً آپ کے خاندان کے پاس رہے۔ قانون خاتمہ زمینداری 1952 ء کے نفاذ کے بعد ضبط کیے گئے۔ کاشت مذکورہ بالا کی اب بھی آپ کے ورثا ءکے پاس موجود ہے۔
مولانا کاظم علی خاں دیندار صحیح العقیدہ اہل و سنت و جماعت تھے۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے پیر طریقت حضرت سید شاہ آل رسول ماہروی کے استاذ حضرت مولانا شاہ انوار الحق فرنگی محلی سے سلسلہ رزاقیہ میں بیعت تھے اور آپ کو اپنے پیر ومرشد سے اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔ آپ بڑے عاشق رسول تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی آپ کی نسل میں برقرار ہے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی لکھتے ہیں: "حضرت مولانا کاظم علی خاں ہر سال 12 ربیع الاول کو محفلِ میلادمبارکہ بڑے التزام سے منعقد کرتے تھے۔الحمد اللہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے"۔
سلطنت مغلیہ کی بیخ کنی کے بعد انگریزوں نے تمام اصول و ضابطے اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر اہل ہند پر ظلم و زیادتی کی تو دربار دہلی اور انگریزوں کےدرمیان خلیج وسیع ہوگئی آپ بادشاہ دہلی کی وکالت کرنے وائسرائے کے پاس کلکۃ گئے۔ انجام کیا نکلا اس کا حال دریافت نہ ہوسکا ۔
قیاس یہ کہتا ہے کہ انگریز نے دربار دہلی کے موقف کو تسلیم نہیں کیا شاید اسی لیے (یعنی انگریزوں کی اہل ہند پر ظلم و زیادتی کی وجہ سے)آپ اور آپ کے صاحبزادے امام العلما مولانا رضا علی خاں انگریزوں کےخلاف تھے اور پہلی جنگ آزادی میں انگریزوں کی زبردست مخالفت کی تھی۔
ماخذومراجع: حیاتِ اعلیٰ حضرت۔حیات مولانا نقی علی خان۔