حضرت مولانا حکیم عابدعلی کوثر خیر آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 1271ھ،میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم وتربیت گھر پر ہوئی،اورختمِ قرآن کےموقع پر فاتحۂ فراغ حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلی سے پڑھا۔ابتدائی دینیات کی کتب پڑھنے کے بعدعلمِ طب کاشوق ہواتو اس وقت کے حاذق طبیب حکیم محمد رشید گوپاموی، اور حکیم رضا حسین لکھنوی سے طب پڑھی۔
بیعت وخلافت: حضرت سید حاجی وارث علی شاہ قدس سرہ کے مرید تھے۔
سیرت وخصائص: طبیبِ حاذق،حکیمِ اعلیٰ حضرت،حضرت مولانا حکیم عابدعلی کوثرخیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ اپنے وقت کے جیداور ممتاز حکماء میں سے ایک تھے۔ آپ کی حذاقت مسلم تھی۔نبض دیکھتے ہی فوراًتشخیص کرلیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کےہاتھ میں شفاء رکھی تھی، صرف چند ادویہ سے علاج کرتے تھے،مریض شفاء یاب ہوجاتا تھا۔آپ مسلمہ حذاقت ومہارت کی بدولت ریاست ٹونک میں شاہی طبیب بھی رہے۔
حکمت کےعلاوہ شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے۔شاعری میں "کوثر"تخلص تھا۔حضرت امیرمینائی سےخاص تعلق تھا۔انہی سے اصلاح لیاکرتے تھے۔آپ صحیح العقیدہ ،صاحب التقوٰی سنی مسلمان تھے۔علماء سے بہت محبت کرتے تھے۔یہی وجہ ہےکہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کی علالت میں بحیثیت صحیح العقیدہ طبیب آپ کومنتخب کیاگیاتھا۔نامورعلماءِکرام کوعلاج معالجہ کےلئےکسی ماہراورسنی معالج کاانتخاب کرنا چاہئے۔یہاں اس حوالے ایک واقعہ نقل کرناچاہتاہوں۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فتاویٰ رضویہ میں امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ کاواقعہ نقل فرمایا ہے۔فرماتے ہیں:"کافرطبیب سے علاج کرانا بالخصوص علمائے وعظمائے دین کے لئے زیادہ خطرے کا مؤیدہے۔ امام مارزی رحمہ اللہ تعالٰی کا واقعہ ہے علیل ہوئے ایک یہودی معالج تھا۔اس کی دوائی سےاچھے ہوجاتے ،پھرمرض عود کرتا (لوَٹ آتا)کئی بار یوہیں ہوا۔ آخر اسے تنہائی میں بلاکر دریافت فرمایا ۔(کیا وجہ ہے کہ صحیح ہوجاتاہوں ،پھراچانک بیماری لوٹ آتی ہے)اس نے کہا: اگر آپ سچ پوچھتے ہیں، تو ہمارے نزدیک اس سے زیادہ کوئی کارِ ثواب نہیں کہ آپ جیسے امام کو مسلمانوں کے ہاتھ سے کھو دوں۔امام رزای نے اسے دفع فرمایا۔ مولی تعالٰی نے آپ کوشفا بخشی۔ پھر امام نے طب کی طرف متوجہ فرمائی اور اس میں تصانیف کیں اور طلبہ کو حاذق اطباء کردیا اور مسلمانوں کو ممانعت فرمادی کہ کافر طبیب سے کبھی علاج نہ کرائیں۔یہود کے مثل مشرکین ہیں کہ قرآن عظیم نے دونوں کو ایک ساتھ مسلمانوں کا سب سے سخت تر دشمن بتایا اورفرمایا"لایألونکم خبالا "(وہ کافر تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔) یہ تو عام کفار کے لئے فرمایا۔یہودی وعیسائی وغیرہ تو نص کی روسے سخت دشمن ہیں"۔
تاریخِ وصال: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے وصال کے دوماہ بعدبروزپیر،2/جمادی الاول1340ھ،کوآپ بھی راہی ِ ملک بقاء ہوئے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔فتاویٰ رضویہ،جلد21۔