حضرت مولانا حکیم محمد ابراہیم لاکھو علیہ الرحمۃ
حکیم مولانا حافظ محمد ابراہم بن محمد عباس لاکھو (گوٹھ مٹھا خان جو کھیہ تحصیل دولت پور صفن ضلع نواب شاہ) تقریباً ۱۲۴۳ھ کو تولد ہوئے۔ میاں محمد ابراہم کو بچپن میں چہرے پر ماتا ہوئی جس کے سبب آنکھوں کی روشنی ختم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بچپن ہی میں والدین انتقال کر گئے اس طرح سخت تکالیف میں پرورش پائی۔ کفالت کا ذمہ آپ کے چچا نے اپنے سر اٹھایا۔
تعلیم و تربیت:
گوٹھ دودوبگھیہ میں آخوند ہارون کے پاس قرآن شریف ناظرہ پڑھا ۔ اس کے بعد مورو میں نامور فقیہ عالم حضرت علامہ مفتی قاضی عبدالرئوف کے مدرسہ میں داخل ہو کر سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد فارسی عربی کی کتابیں پڑھ کر درس نظامی مکمل کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی درسگاہ میں طب میں تحصیل کی ۔ آنکھیں نہ ہونے کی وجہ سے رب کریم نے انہیں آنکھوں والی توانائی دماغ میںودیعت فرمائی تھی۔ یہی سبب تھا کہ وہ قوی الحافظہ تھے اور تمام کتابیں حفظ تھیں۔
بیعت:
حضرت میاں محمد ابراہیم سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں درگاہ خنیاری شریف (ضلع نواب شاہ) کے کسی بزرگ سے دست بیعت ھتے۔مرشد سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ان کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف کو پابندی سے ورد میں رکھتے تھے اور اکثر مرشد خانہ حاضری دیتے تھے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت گوٹھ مٹھا خان جو کھیہ میں مدرسہ قائم کیا اور درس و تدریس کا آغاز کیا۔ لیکن رشتہ داروں کی اذیت و تکالیف کے سبب اپنے شاگرد مولانا تاج محمد بگھیو کے مشورے پر دودوبگھیہ میں اقامت کا فیصلہ کیا۔ گوٹھ دودو بگھیہ کے رئیس میاں احسان بگھیو (والد مفتی محمد دائود بگھیو مرحوم) نے استقبال کیا اور قیام کیلئے تیار شدہ گھر دیئے۔ دودو بگھیہ میں مدرسہ قائم کیا اور دن رات درس و تدریس کا شغل جاری رکھا، بہت علم کے پیاسے پیاس بجھانے آئے اور سیراب ہو کر گئے۔
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں سے بعض کے اسماء درض ذیل ہیں:
٭ حکیم مولانا میاں محمد حسین لاکھو (صاحبزادہ)
٭ مولانا میاں حبیب اللہ لاکھو (صاحبزادہ)
٭ مولانا محمد دائود میمن (دولت پور صفن)
٭ مولانا محمد اسماعیل گچیرے والے
٭ مولانا محمد صالح بگھیہ
٭ مولانا محمد افضل ڈاہری
٭ مولانا تاج محمد بگھیہ
٭ حکیم حاجی الف جوکھیو
٭ قاضی محمد یوسف
٭ مولانا رضا محمد راہو وغیرہ
تصنیف و تالیف:
آپ نے فتاویٰ ، دینی و طبی کتابیں اپنے صاحبزادے میاں محمد حسین لاکھو سے املا کروائیں جو کہ زمانہ کی گردش کی سبب ضائع ہوگئیں۔
حکمت:
میاں صاحب بیماروں کا جسمانی علاج بھی کرتے تھے اور شاگردوں کو علم طب بھی پڑھاتے تھے۔ اور خواتین کو دیسی طبی نسخے بتا کر چھوٹے بڑے مرض میں خود کفیل بناتے تھے۔ خواتین بھی نسخے یاد کرکے نیم حکیم بن گئی تھیں۔
شادی و اولاد:
میاں صاحب نے تین شادیاں کیں۔ صرف ایک بیوی سے دو بیٹے(۱) مولانا میاں محدم حسین (۲) مولانا حبیب اللہ تولد ہوئے جو کہ آپ کے شاگر ارشد اور عالم دین و درویش صفت انسان تھے۔
ہمعصر:
حضرت میاں محمد ابراہیم کے ہمعصر نامور علماء و مشائخ میں مولانا غلام محمد نقشبندی ملکانی شریف، مولانا عبدالرزاق بوبک (تحصیل سیوہن شریف) اور مولانا عبداللطیف (ہالا) وغیرہ مشہور ہیں۔
وصال:
حضرت مولانا محمد ابراہیم ، عالم با عمل ، شریعت مطہرہ کے پابند طلباء پرمہربان سخی مہمان نواز، اساتذہ و مرش دکریم کے نہایت ادیب یہاں تک کہ اساتذہ کرام کا احتراماً نام نہیں لیتے تھے بلکہ القاب سے یاد کرتے تھے۔ شب بیدار اور عشق مصطفی ﷺ میںلبریز دل رکھتے تھے۔ میاں محمد ابراہم آخری دنوں میں بیمار ہوگئے اور ۱۸ شوال المکرم ۱۳۱۹ھ/ ۱۹۰۲ء کو انتقال کیا اور گوٹھ دودو بگھیہ کے قبرستان میں دفن کئے گئے جہاں آج بھی آپ کا آستانہ آباد ہے۔
[مواد کے حصول کے سلسلے میں حکیم غلام رسول لاکھو صاحب کے مشکور ہیں]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)