حضرت مولانا صوفی حامد علی (لیہ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا صوفی حامد علی قدس سرہ اپنے دور کے بہترین مدرسین میں شمار ہوتے تھے ، موجودہ دور میں تقوی وپر ہیز گار ی کے اعتبار سے سلف صالحین کا نمونہ تھے۔آپ کے ابتدائی حالات معلوم نہ ہو سکے ، راقم نے سیال شریف میں آپ سے نحو میر پڑھنے کی سعاد ۔۔۔۔
حضرت مولانا صوفی حامد علی (لیہ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا صوفی حامد علی قدس سرہ اپنے دور کے بہترین مدرسین میں شمار ہوتے تھے ، موجودہ دور میں تقوی وپر ہیز گار ی کے اعتبار سے سلف صالحین کا نمونہ تھے۔آپ کے ابتدائی حالات معلوم نہ ہو سکے ، راقم نے سیال شریف میں آپ سے نحو میر پڑھنے کی سعادت حاصل کی تھی ، ان جیسے انہماک سے پڑھاتے ہوئے بہت کم اساتذہ کو دیکھا گیا ہے۔
حضرت مولانا صوفی حامد علی قدس سرہ سلسلہ ٔ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت پیر بار و دام ظلہ العالی سے بیعت اور مستفیض تھے ۔ طویل عرصہ تک سیال شریف میں پڑھاتے رہے پھر غالباً 61ء یا 1962ء میں ضلع لیہ میں جامعہ نعیمیہ رضویہ کی بنیاد رکھی ، تدریس کے لئے بہترین مدرسین کا انتظام کیا، گردو نوح کے متلا شیان علم دین جوق در جوق آنے لگے اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدرسہ ایک مثالی درس گاہ بن گیا۔
19رجب، 16 جولائی ( 1396ھ/1976ء) بروز جمعہ حضرت استاذی الکریم مولانا صوفی حامد ولی قدس سرہ کا وصال ہو اور لیہ میں آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔اب وہ محلہ جہاں آپ نے مدرسہ قائم کیا تھا، حامد آباد ، کے نام سے معروف ہے آپ کے بھتیجے مولانا محمد اقبال سلمہ بہ ہو نہار اور زیرک نو جوان ہیں ، خدا کرے وہ جامعہ نعمانیہ رضویہ کی بقا اور ترقی کی کوششوں میں کامیاب ہوں۔
جناب فدا حسین فدا مدظلہ نے قطعۂ تاریخ وصال تحریر کیا۔
نہ کیونکر اہل علم و فضل کے دل آج ہوں غمگیں
ہوئے جو حضرت حامد علی میں دہر سے رخصت
انہیں محبوب تھا دین رسول ہاشمی واللہ !
حریف اہل باطل تھے وہ الحق قاطع بدعت
وہ پابند شریعت بھی تھے اور اہل طریقت بھی
انہیں ہر حال میں مطلوب تھی اسلام کی حرمت
علوم دیں میں یکتا تھے وہ بیشک بزم عالم میں
نہاں ہر دل میں ہے ان کے کمال و فضل کی عظمت
بہ فیض رحمۃ العالمین از لطف ربانی
بنے گی بقعۂ انوار یزدان آپ کی تربت
سن ترحیل میں ان کے فدا غلبان ہوتے ہی
ندایہ عرش سے آئی کہو ’’صوفی ملک خصلت‘‘
(تذکرہ اکابرِاہلسنت(