شیخ الفقہ مولانا حسن الدین ہاشمی، بہاولپور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ الفقہ والقانون حضرت علامہ مولانا حسن الدین ہاشمی بن فرید العصر مولانا فریدالدین (متوفی ۷؍شوال ۱۳۹۲ھ /۱۴؍نومبر ۱۹۷۲ء) بن حضرت مولانا احمد الدین ابن مولانا امیر حمزہ قدست اسرارہم ۲۱؍رجب المرجب ۱۳۴۹/ ۱۲؍دسمبر ۱۹۳۰ء میں قصبہ بھوئی گاڑ (ضلع کیمبپور) کے مقام پر پیدا ہوئے۔
آپ کا سلسلۂ نسب امام محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے اور آپ کا علمی خاندان پورے علاقہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے[۱]۔
[۱۔ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہل سنّت، ص۳۷۵۔ ۴۱۶]
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا فریدالدین، تایا حضرت علامہ محب البنی اور جدِّ امجد مولانا احمد الدین متبحر علماء تھے۔
تحصیل علوم:
آپ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ ضلع سرگودھا میں مولانا محی الدین بھیروی سے حاصل کی پھر صرف و نحو کی کتب اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے منڈی واء برٹن ضلع شیخوپورہ میں پڑھیں۔ دیگر علوم و فنون کی کتب اہل سنت کی مرکزی درس گاہ مدرسہ عربیہ انوارالعلوم (ملتان) میں پڑھنے کے بعد کتب احادیث (صحاح ستہ) جامعہ غوثیہ گولڑہ شریف میں اپنے عمِ مکرم استاذ العلماء حضرت مولانا محب البنی قدس سرہ العزیز (متوفی ۲۱؍ربیع الاول، ۲۲؍مارچ ۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء سے پڑھ کر سندِ فراغت و دستار فضیلت حاصل کی۔
تدریسِ و خطابت:
آپ فراغت کے بعد دارالعلوم حزب الاحناف (لاہور) میں مسندِ تدریس پر فائز ہوئے اور ساتھ ہی مسجد شمس الدین مصری شاہ میں خطابت کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ عرصہ دارالعلوم انجمن نعمانیہ میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
سابق صدرِ پاکستان محمد ایوب خان کے دورِ اقتدار میں جب جامعہ عباسیہ (جامعہ اسلامیہ(بہاول پور کو سرکاری تحویل میں لیا گیا، تو آپ جامعہ میں فقہ و قانون کے استاذ مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں علماء اکیڈیمی محکمہ اوقاف (لاہور) میں لیکچرر مقرر ہوئے اور پھر ۱۹۷۴ء میں دوبارہ جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی) بہاول پور تشریف لے گئے[۱]۔
[۱۔ پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی، تذکرہ علماء اہل سنّت لاہور، ص۴۲۴]
۱۹۷۵ء میں جب جامعہ سے رخصت پر آئے تو لاہور میں جامعہ نطامیہ رضویہ کے طلباء کو درسِ حدیث دینا شروع کردیا اور ڈھائی تین ماہ بعد واپس جامعہ اسلامیہ تشریف لے گئے[۱]۔
[۱۔ جامعہ نظامیہ رضویہ میں دورۂ حدیث کی جماعت، جس نے آپ سے اکتسابِ فیض کیا، اس میں راقم بھی تھا اور اس کتاب ’’علماء اہل سنّت کا تعارف‘‘ کی ترتیب کے لیے بنیاد آپ کا حسنِ انتخاب ہی تھا۔ (مرتب)]
آپ علومِ عربیہ اسلامیہ کے کامل و ماہر استاد ہونے کے علاوہ علومِ جدیدہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ نفاست پسند ہیں اور نہایت میٹھی کلام فرماتے ہیں۔ آپ کے نزدیک علومِ عربیہ اسلامیہ کے طلباء کو جدید علوم سے آگاہی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا صحیح مقام پیدا کرسکیں۔
تحریرات:
حضرت علامہ حسن الدین ہاشمی نہ صرف کامل مدرس ہیں، صاحب قلم بھی ہیں۔ لاہور میں تدریس و خطابت کے دوران آپ نے ماہنامہ ’’ترجمان حقیقت‘‘ جاری فرمایا۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے ’’مجلہ‘‘ کی ادارت بھی فرماتے رہے۔
منطق کی مشہور کتاب قال اقول کی شرح البیان المعقول اور ادب کی کتاب سبعہ معلقات کی شرح بھی تحریر فرمائی۔[۱]
[۱۔ مولانا غلام مہر علی، الیواقیت المہریہ، ص۱۲۶]
(تعارف علماءِ اہلسنت)