حضرت شاہسوار خطابت مولانا الٰہی بخش، لاہور علیہ الرحمۃ
شاہسوارِ خطابت اور بے باک و حق گو مبلغ حضرت علامہ مولانا الٰہی بخش بن الحاج الحکیم مولانا محمد شفیع نقشبندی رحمہ اللہ ذوالحجہ، اپریل ۱۳۴۹ھ/ ۱۹۳۱ء میں لاہور شہر کے مشہور محلہ قلعہ گوجر سنگھ میں پیدا ہوئے۔ آپ راجپوت (طور) خاندان کے ایک عظیم علمی و روحانی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کا خاندان ہر دور میں صحیح مسلک (اہل سنت و جماعت) پر گامزن اور علم و عمل کے زیور سے آراستہ رہا۔
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد شفیع رحمہ اللہ ممتاز و مستند حکیم و طبیب اور مسلکِ اہلِ سنّت کے باعمل عالم تھے۔ آپ کے دادا جان حاجی مولانا محمد عبداللہ ذیشان عالم اور صاحبِ جلال بزرگ تھے، انہوں نے تمام زندگی مسجد سرائے سلطان لاہور میں گزاری، علاقہ کے تمام افراد آپ کی علمی اور روحانی برکتوں سے فیض یافتہ تھے۔
حضرت علامہ الٰہی بخش نے ۱۹۴۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد خاندانی روایات کے مطابق علمِ دین کے حصول کی خاطر اہل سنّت و جماعت کے مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف میں داخلہ لیا۔ حضرت علامہ مولانا سید منور علی شاہ رحمہ اللہ اور حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عالم دامت برکاتہم العالیہ سے فنونِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد شاہ رحمہ اللہ سے علمِ حدیث پڑھا اور ۱۹۵۳ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ اسی دوران آپ نے منشی فاضل اور دیگر مروجہ امتحانات پاس کیے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے فن خطابت میں ایک خاص مقام عطا فرمایا ہے۔ زورِ بیان جرأت، بے باکی، دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے مزین کلام، آپ کی تقریر کا طرۂ امتیاز ہے۔
آپ نے تقاریر کا سلسلہ دورانِ تعلیم ۱۹۵۲ء میں ہی شروع کردیا تھا، تاہم باقاعدہ خطابت کا آغاز آپ نے فراغت کے بعد کیا۔ ابتدا جامع مسجد چودھریاں قلعہ گوجر سنگھ سے کی۔ تقریباً ایک سال جامع مسجد حضرت ابوالمعالی شاہ رحمہ اللہ میں فرائضِ خطابت انجام دیتے رہے۔
۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۲ء تک جامع مسجد غوثیہ رام نگر (چوبرجی) ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۴ء تک جامع مسجد عثمانیہ راج گڑھ اور ۱۹۶۴ء سے ۱۹۶۸ء تک مسجد تکیہ والی قلعہ گوجر سنگھ اور جامع مسجد دربار حضرت شاہ ابوالمعالی رحمہ اللہ میں جمعہ پڑھاتے رہے۔
۱۹۶۸ء سے آپ جامع مسجد محمدیہ نیو عالمگیر مارکیٹ لاہور کے خطیب مقرر ہوئے، جہاں شہر کے مختلف حصوں سے آنے والے بے شمار عوام اہلِ سنت آپ کے فاضلانہ بیان سے مستفید ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ جامع مسجد فاروقیہ واشنگ اور جامع مسجد ریلوے جنرل اسٹور میں بھی خطابت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغی و اصلاحی جلسوں سے خطاب کے علاوہ آپ مختلف مساجد میں درسِ قرآن دیتے ہیں۔ مختلف دینی و مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کے ذریعے مسلکِ اہل سنت کی ترویج و تشہیر میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ کے مزار پر انوار پر جمعرات کی تبلیغی محفل کی جان آپ ہی ہوتے ہیں۔ آپ کی مجاہدانہ و باطل سوز تقریر سننے کے لیے لوگ پروانہ وار آتے ہیں۔ تحریکِ ختمِ نبوت اور تحریک نظام مصطفےٰ میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔
کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان (۱۹۷۸ء) کو کامیاب بنانے کے لیے آپ نے مثالی کردار ادا کیا۔ آپ نے معراج النبی کے موضوع پر ایک کتاب بھی تالیف فرمائی۔ آپ سرکاری دفتر میں ملازمت بھی کرتے ہیں۔ نہایت سادہ، مخلص اور اولیائے کرام سے بے پایاں عقیدت رکھنے والے ہیں[۱]۔
[۱۔ تمام کوائف حضرت علامہ الٰہی بخش سے براہِ راست حاصل کیے۔ ۲۲ جنوری ۱۹۷۹ء۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)