حضرت مولانا جمال الدین فرنگی محلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی: حضرت مولانا جمال الدین۔لقب: ملک العلماء۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا جمال الدین بن مولانا علاء الدین بن مولانا شیخ انوارلحق۔ حضرت بحر العلوم لکھنوی کے نواسے تھے۔(علیہم الرحمہ)
مولد: اپنے آبائی مکان فرنگی محل(لکھنؤ) میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: اپنے والد ،نانا اورچچا حضرت مولانا نور الحق سے کتبِ درسیہ کی تحصیل کی۔آپ اپنے وقت کے جید عالمِ دین تھے۔تمام علوم میں بالعموم اور معقولات میں بالخصوص مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔
بیعت وخلافت: آپ اپنے والد گرامی کے مرید وخلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص: غیظ المنافقین،مہلک الوہابیین،جامع المعقولات والمنقولات، امام المناطقہ ،رئیس العلماء حضرت علامہ مولانا جمال الدین فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ جامع اور باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ساری زندگی درس وتدریس ،وعظ ونصیحت ،ردبدمذہباں، اور مسلک اہل سنت کی تبلیغ واشاعت میں مشغول رہے۔ حصول ِعلم کے بعد آپ کر ناٹک صوبہ مدراس چلے گئے ۔یہاں آپ کے والد مدرسہ کلاں میں صدر مدرس تھے۔ٖاس سے پہلے آپ کے نامور نانا صدر مدرس تھے۔والد کے انتقال 1242ھ کے بعد بھی آپ کر ناٹک میں ہی مقیم رہ کر دینِ متین کو چار چاند لگادیے۔مسلک ِ حق کی خوب اشاعت فرمائی ۔آپ نے ان علاقوں میں ردِّ وہابیت کا مجاہدۂ عظیم انجادیا۔
ان علاقوں میں مولوی محمد علی رام پوری خلیفہ سید احمد رائے بریلوی نے پیری مریدی کے دجل وفریب سے بہت سے سادہ لوح قسم کے افرادمرید کرلیے تھے۔آپ نے مسئلہ شفاعت پر مولوی محمد علی سے مناظرہ کیا،اس کو شکستِ فاش دی ، اور اس کو مجبور کیا کہ تقویۃ الایمان کی قابلِ اعتراض عبارتوں سے اپنی برأت کا اظہار کریں۔مولوی محمد علی رام پوری نے مسجد والا جاہی میں بعد نماز جمعہ تحریری برأت نامہ پیش کیا۔جو تمام حاضرین کو سنایا گیا۔مگر اس مجمل برأت نامے سے آپ مطمئن نہ ہوئے ،مولوی محمد علی رام پوری نے دوسرا برأت نامہ پیش کیا۔مگر ایک طرف برأت نامہ پیش کیا اور دوسری طرف ایسی تقریریں کرتے جس سے مولوی اسمٰعیل وسید احمد کی تعریف و توصیف بھی ظاہر ہوتی۔آپ نے ان کی حرکتوں کے پیش نظر ایک فتویٰ مرتب فرمایا۔ اور علماء سے دستخط کراکے اس کےقتل کےحکم کا شرعی کا اعلان کردیا۔مولوی محمد علی اس فتوے کے ڈر سے کلکتہ فرار ہوگیا،اور اسطرح یہ علاقہ فتنہ ٔ وہابیہ سے مامون ہوگیا۔
اس وقت فتنۂ وہابیہ برِّصغیر میں اپنے پرپرزے نکال رہاتھا،مولانا نے اس فتنے کو ختم کرنے کےلئے بہت کوششیں فرماٖئیں ،اورکافی حدتک کامیاب بھی ہوئے۔اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔"نزہۃ الخواطر" کے مصنف صاحب آپ کی ہاتھوں وہابی دھرم کی ذلت اور اپنے بڑوں کی شکست پربڑے سیخ پاہوئے،اس سےحضرت کی شان میں توکوئی کمی نہیں ہوئی ،البتہ مصنف کو ورق سیاہ کرنے کےعلاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔
وصال: 8/ربیع الثانی 1276ھ،مطابق نومبر1859ء کووصال ہوا۔آپ کامزارشریف "آرکاٹ"(ضلع ویلور،انڈیا)میں ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہلسنت۔نزہۃ الخواطر۔