حضرت مولانا منظور احمد دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
فاضل جلیل حضرت مولانا محمد منطور احمد بن حضرت مفتی اعظم شاہ محمد مظہر اللہ قدس سرہ العزیز امام شاہی مسجد جامع دہلی فتح پوری تقرباً ۱۳۴۶ھ؍۱۹۲۷ئمیں دہلی میں پید ہوئے۔ابتدائی تعلیم والد ماجد سے ھاسل کی، ۱۹۳۹ء میں مدرسہ عالیہ جامع فتح پوری (دہلی) میں داخل ہو گئے۔بڑے ذہین اور طباع تھے،ہمیشہ اپنی جماعت میں اول رہے ۱۹۴۶ء میںدورئہ حدیث کی تکمیل کی اور پورے جامعہ میحں اول آئے،مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا،خطابت کی دل نشینی کا یہعالم تھا کہ ان کا وعظم ہر خاص و عام کا دل م وہ لیتا تھا،شیدید علالت کے دوران بھی نماز کو ترک نہیںکیا۔والد ماجد کی عقیدت و محبت اور اور ان کے پاس کاطر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالت مرض میں ہایت نحیف ہونے کے باوجود انہیں اپنی صحت و عافتی ہی کی اطلاع دیتے ترہے تاکہ انہیں کسی قسم کی پرشانی نہ ہو۔
آپ نے علم توقیت والد ماجد سے حاصل کیا تھا،انہیں اس فن میں کامل عبور حاصل تھا،ااپ نے کراچی کے لئے دائمی تقویم مرتب کی جس میں پانچوں نمازوںکے اوقات اور طلوع و غروب آفتاب کے وقت کا بیان کیا،یہ دائمی تقویم آپ کے برادر گرامی مکیرمی ڈاکٹر محمد مسعود احمد مدطلہ مولف فاضل بریلوی قدس اور ترک مولالات کی ترتیب نو سے ۱۹۶۷ء میں کوئٹہ سے شائع ہو چکی ہے ۔
حضرت مولانا ۱۹۴۷ء کے اواخر میں پاکستان تشریف لے آئے لیکن کچھ عرسہ تک صحت خراب ہو گئی اس لئے بہاول پور سے حیدر آباد تشریف لے گئے،مرض کی مدت اس قدر بڑی کہ ڈاکٹر مایوس ہو گیا مگر قدرت نے صحت عطا فرمادی، ابھی چند دن ہی گزرے تیکہ بیماری پھر عود کر آئی اور تپ دق کا عارضہ لاحق ہوگیا۔مولانا نے تمام تکالیف کو کمال استقامت سے برداشت کیا۔
آخر کار ۳شعبان،یکم جون (۱۳۶۹ھ؍۱۹۴۹ئ) بروز چہار شنبہ آپ نے داعئی اجل کو لبیک کہاحضرت بیخود دہلوی کے شاگرد یکتا دہلوی نے قطعۂ تاریخ وفات کہا جس کا تاریخی شعر درج ذیل ہے ؎
ملاکر الف یکتا اللہ کا لکھ
’’خدا کا ہے محبوب منظو ر احمد‘‘
جب آپ کے انتقال کی خبر آپکیاستاد مولانا ولایت احمد کو پہنچی تو انہوں نے با چشم پر نم فرمایا:
’’اگر ان کی حیات ہوتی تو اپنے زمانہ کے شاہ ولی اللہ ہوتے۔‘‘
مولانا مرحوم کا مزار حیدر آباد کے مشرقی جانب نہر پھیلی کے کنارے واقع ہے[1]
[1] محمد مسعود احمد،ڈاکٹر : مقدمہ دائمی تقویم،مطبوعہ گلڈ انجم کتاب گھر،کراچی،ص ۳۔۱۵
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)