حضرت مولانا مفتی عبدالعزیز مزنگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا مفتی ابو رشید محمد عبد العزیز ابن میاں محمد فضل الدین ( م یکم صفر ، ۶ نومبر ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء ) ابن محمد عطاء اللہ ابن میر عبد الحکیم ابن میر قائم ابن میر شرف اللہ ابن میر زمان اللہ ( یکے از خلفائے با با نصیب الدین غازی) موضع چانگا نوالی (مضافات جلال پور جٹاں ضلع گجرات ) میں پیدا ہوئے ، مدرسہ رحیمیہ نیلا گنبد لاہور میں مولانا محمد عالم سے استفادہ کیا ، کچھ عرصہ مدرسہ حمید یہ انجمن حمایت اسلام لاہور میں بھی تعلمی حاصل کی ۔ مولانا کریم بخش ( والد ماجد مولانا فضل میراں متوفی ۶ ربیع الاول، اپریل ۱۳۲۵ھ /۱۹۰۷ء ) سے فیضیاب ہوئے پھر ان کے صاحبزادے ادب عربی کے مایہ ناز فاضل مولانا فضل میراں کے قابل فخر شاگرد اور داما د تھے ، مزنگ میں مرزا محمد بیگ سے جلد سازی کا کام سیکھا ، تکمیل کے بعد مسجد چاہ جھنڈی والی میں امام مقر ر ہوئے ۔ یہاں آپ نے ایک مدرسہ قائم کیا جہاں سے مزنگ کے کئی علماء فیضیاب ہوئے ، اس کے بعد عرصۂ دارز تک مسجد قلعہ مادھو مزنگ اور جامع مسجد جناز گاہ میں ملا مشاہرہ خطیب رہے ۔ انجمن اسلامیہ مزنگ کی بنیاد رکھی اور مختلف مقامات پر تبلیغ کے لئے تشریف لیجاتے رہے ۔ حکومت بربانیہ کے عہد میں آپ سنٹرل جیل میں جاکر تبلیغ کیا کرتے تھے جس سے متاثر ہو کر کئی ہند واور سکھ مشرف بہ اسلام ہو گئے ، آپ حضرت پیر قربان علی شاہ (آدم پور دو ٓابہ ضلع جالندھر)کے مرید تھے۔
آپ مرنجاں مرنج انسان تھے، والدئہ ماجدہ ی بیحد خدمت کی اور دعائیں لیں ۔آپ کا ذریعۂ معاش تصحیح کتب تھا ، ملک دین محمد اینڈ شنز لاہور اور متعد ناشرین کی اکثر و بیشتر مطبوعات کی تصحیح کتابت آپ ہی کرتے تھے چنانچہ بہار شریعت (۱۷حصے)، تجرید الا حادیث ، اور تجرید البخاری عغیرہ کتب پر بحیثیت مصحح آپ ہی کا نام ملتا ہے ۔ آپ ہر وقت مطالعۂ کتب ، تصحیح، فتویٰ نولیسی اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ، اس دوران اگر کوئی مسئلہ دریافت کرتا تو کتب معتبرہ کے حوالہ سے جوا ب دیتے اور کسی کو ما یوس نہ کرتے ، بچے سلام کرنے حاضر ہوتے تو انہیں شیر ینی عنایت فرماکر خوش کرد یتے آپ کثیر التصانیف عالم دین تھے ، چند کتابوں کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ الافتاء فی جواب الاستفتاء اہل سنت کے عقائد اور معمولات کو دلائل کی روشنی میں ثابت کیا ہے ۔
۲۔ عزیز المعظم فی اکرام المکرم اس بارے میں کہ سیدہ کا نکاح غیر سید سے نہیں کرنا چاہئے۔
۳۔ آفتاب ہدایت رد وافض میں ، حج کی دعائیں۔
۴۔ عزیز البیان فری تفسیر القرآن یہ تفسیر مستند تفاسیر کا خلاصہ مولوی اشرد علی تھانوی کے ترجمہ کے ساتھ حاشہ پر چھپی ہ ، اس تفسری میں مفتی صاحب کے ساتھ مولانا ابو المظفر فضل الرحمن شریک تھے۔
۵۔ عہد نامہ مترجم (مطبوعہ ملک سراج دین لاہور)
۶۔ اربعین عزیزی المعروف بہ احسن الاقوال فی احوال الابدال اس میں بڑی عر قریزی سے کام لیا گیا ہے ، اس میں ستر کتب معتبر ہ سے استفادہ کیا گیا ہے ۔
۷۔ سیرۃ النبی الخلیل سلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (سوانح عمری سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم)
۸۔ عزیز المجلّی ( ترجمہ و تشریح منیتہ المصلی المعروف بہ مکمل صلوٰۃ الرحمن)
۹۔ قربانی کے احکام،
۱۰ ۔ مسائل زکوٰۃ،
۱۱ نسب نامۂ نبی کریم سلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔
۱۲۔ زاد الآ خرہ فی مسائل الجنازہ ۔
۱۳ ۔ تصحیح و تحشیہ عزیز المرقاۃ الیٰ مطالب مشکوٰۃ ۔
آپ ی تصانیف دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ دینی اور فقہی معلومات کے دارئرۃ المعارف ( انسائکلو پیڈیا) تھے۔ ذوالحجہ ، فروری (۱۳۵۶ھ/۱۹۳۸ئ) میں حج و زیارت سے مشرف ہوئے ۔ الحاج مولانا میاں محمد حسین نقشبندی مجددی (ف ۱۳۷۸ھ/۱۹۵۸ئ) ساکن جگیاں ناگرہ کلاں (مضافات لاہور) حضرت مفتی صاحب کے شاگرد اور صاحب دل بزرگ تھے۔
مفتی صاحب نے ۳۰ رجب المرجب ، ۱۶ دسمبر( ۱۳۵۶ھ/۱۹۶۳ء ) کو دار فانی سے انتقال فرمایا ۔ مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ نے یہ تاریخ وسال نکالی ہے :۔
آہ خوش سیر عبد العزیز[1]
[1] محمد موسیٰ امر تسری ، حکیم اہل سنت : قلمی یادداشت
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)