حضرت مولانا مفتی محمد صادق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا مفتی محمدصادق رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۳۴۴ھ؍۱۹۲۵ء میں موضع برزائی(ضلع کیمبلپور) میں پیدا ہوئے۔ قرآن مجید پڑھنے کے بعد آٹھویں جماعت تک سکول میں تعلیم حاصل کی،بعد ازاں اپنے بڑے بھائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی،پھر حضر و ضلع کیمبلپور کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی،درس نظامی کی متداول کتب پڑھنے کے بعد ۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۷ء میں مغربی پاکستان کی قدیم درس گاہ دار العلوم حزب الاحناف (لاہور) میں درس حدیث لیا اور امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوئے ۔تحصیل علم کے بعد راولپنڈی میں مستقل سکونت اختیارکی اور تبلیغ دین کا کام شروع کیا۔۱۳۸۲ھ؍۱۹۶۲ء میں سراپا اشتیاق و محبت بن کرحجاز مقدس کا سفر کیا اور حرمین شریفین کی حاضری سے شادکام ہوئے آپ سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں دربار عالیہ گولڑہ شریف کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔
مفتی صاحب ہر دلعزیز اور مقبول عام شخصیت تھے،فن خطابت میں ید طولیٰ حاصل تھا اکثر و بیشتر تبلیغی دوروں پر رہا کرتے،دین متین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لئے بے پناہ درد رکھتے تھے،راولپنڈی میں جب تنظیم العلماء کے نام سے ایک جماعت قائم کی گئی تو مفتی صاحب نے پر جوش اور سر گرم رکن کی حیثیت سے کام کیا، تنظیم کے تحت ہفتہ وار گراموں میں باقاعد گی سے شریک ہوئے،چونکہ آپ کی قیام گاہ مورگاہ میں تھی اور رات کو اجلاس کے اختتام پر کوئی سواری بھی میسر نہ ہوتی تھی اس لئے پیدل ہی اپنی قیام گاہ پر تشریف لے جاتے ۔ یہ ان کے خلوص و ایثار کی بین دلیل تھی کہ وہ تبلیغ دین کے جذبے کے تحت اپنے آرام و سکون کو پس پشت ڈال دیتے تھے،جب بھی کوئی مجلس مشاورت منعقد ہوتی تو آپ کی یہی کوشش ہوتی کہ غیر متعلقہ باتوں کی بجائے پوری توجہ علماء کی تنظیم اور جماعت کی ترقی و استحکام کے مختلف پہلوئوں پر صرف کی جائے۔
مفتی صاحب سحر بیان خطیب تھے،جب خطبہ شروع کرتے تو تمام مجمع پر سکوت طاری ہو جاتا اور ہر شخص ان کی تقریر سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ جاتا اور جب پر سوز آواز میں مثنوی شریف پڑھتے تو سامعین جھوم اٹھتے اور اکثر لوگوں کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو جاتیں۔
۱۲؍صفر المظفر،۲۳ مئی (۱۳۸۷ھ؍۱۹۶۷ئ) بروز منگل شام ساڑھے چار بجے مورگاہ اٹک آئل کمپنی سے ایک ضروری دینی کام کے لئے سکوٹر پر سٹلائٹ ٹائون جارہے تھے کہ راستے میں مری روڈ پر پولیس کی گاڑی سے حادثہ ہو گیا جس میں آپ شدید طور پر زخمی ہو گئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تین بجے شب محبوب حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے، دوسرے دن بوندا باندی کے باوجود شہر بھر کے علماء اور بیس ہزار سے زائد افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور مورگاہ کی مسجد میں باچشم نم سپرد خاک کیا۔مفتی صاحب نے پسماند میں ایک بیوہ اور چھ بچے چھوڑے[1]
[1] ہفت روزہ (اب ماہنامہ) رضائے مصطفی
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)