استاذ العلماء مولانا مفتی نجم الدین یاسینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
استاد العلماء مفتی محمد نجم الدین بن میاں امام بخش سومرو ۲۶ رجب المرجب ۱۳۲۶ھ کو سندھ کے علمی و ادبی شہر گڑھی یاسین (ضلع شکار پور) میں تولد ہوئے۔ مفتی نجم الدین مفتی محمد قاسم و مفتی محمد ابراہیم یاسینی کے بہنوئی تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے قرآن مجید ناظرہ اپنے سالے مولانا حافظ محمد ابراہیم کے پاس پڑھا۔ حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب کے پاس فارسی میں سکندرنامہ تک صرف و نحو میں کافیہ تک منطق میں مرقاۃ تک ، فقہ میں کنز تک حدیث میں مشکوٰۃ تک، اصول فقہ میں اصول الشاشی اور ترجمہ قرآن پاک پڑھا۔ ابھی تعلیم جاری تھی کہ حضرت مولانا محمد قاسم کا ۱۸ ذوالقعدہ ۱۳۴۹ھ کو انتقال ہوگیا ۔ ان کے وصال کے بعد بقیہ نصابی کتب (درس نظامی) حضرت مولانا محمد ابراہیم کے پاس پڑھیں ، ان میں جلالین ، شرح تہذیب شرح وقایہ، ہدایہ مکمل ، جامی مطول، توضیح تلویخ ، بیضاوی سورہ بقر اور صحاح ستہ بھی شامل ہیں۔ نصابی کتب کی تکمیل کے بعد ۱۸ ، ذوالقعدہ ۱۳۵۶ھ/۱۹۳۸ء کو گڑھی یاسین کے دارالعلوم ہاشمیہ قاسمیہ سے دستار فضیلت اور سند حاصل کی۔
درس و تدریس:
مولانا نجم الدین طالب علمی کے دوران متبدی طلباء کو اپنے اساتذہ کی نگرانی میں درس دیا کرتے تھے جس کے سبب ان میں خوب استعداد پیدا ہوئی اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد باقاعدگی سے درس و تدریس کا سلسلہ مادر علمی میں شروع کیا اور درس نظامی کی تمام کتب بغیر کسی رکاوٹ کے خود پڑھاتے تھے۔ ۱۹۴۷ء قیام پاکستان کے وقت بعض مسائل کی بنا پر آپ نے مادر علمی کو الوداع کہا اور جیکب آباد کے ہائی اسکول میں عربی کے استاد مقرر ہوئے ، دو سال وہیں پڑھایا ۔ اس کے بعد مادر علمی کی جانب واپس آئے اور بقیہ زندگی وہیں دارالعلوم قاسمیہ میں درس و تدریس میں گزاری۔
بیعت:
مفتی نجم الدین سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت آغا عبداللہ جان سر ہندی علیہ الرحمۃ (ٹنڈو سائینداد) کے دست بیعت ہوئے۔
اولاد:
آپ کے دو بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ مولانا مفتی محمد قاسم اویسی مدرس مدرسہ قاسمیہ و پیش امام جامع مسجد گڑھی یاسین
۲۔ مولانا حکیم محدم عاصم سو مرو بی۔ اے
تصنیف:
٭ مجموعہ فتاویٰ
٭ آغاز فارسی
٭ سوانح حیات حضرت مولانا محمد ابراہیم یاسینی
نشر و اشاعت:
مولانا نجم الدین نے متحرک زندگی گزاری بعض دینی کتابوں کو شائع کیا، مناظرے کروائے، عوام الناس کی رہنمائی کیلئے ہندوستان کے نامور سنی علماء کو مدعو کرکے اپنے علاقوں میں جلسے منعقد کراتے تھے۔ آپ نے وقت کے نامور علماء سے ملاقاتین کیں اور فقہی تحقیقات میں تبادلہ خیالات پر مشتمل محافل کا انعقاد کیا۔ ایک انٹرویو میں اس کی تفصیل یوں بتاتے ہیں۔
۱۔ فتاویٰ ہمایونی (دو حصے سندھی مترجم مفتی محمد ابارہیم
۲۔ مامریداں (فارسی نظم) مصنف مفتی محمد ابراہیم۔ یہ رسالہ تقلید شخصی کے جوا زمیں ہے۔
۳۔ الحجۃ الکافیہ فی جواز الجماعۃ الثانیہ (عربی و فارسی ) مفتی محمد ابراہیم
۴۔ بیاض واحدی(فارسی) مصنف حضرت مولانا مفتی محمد قاسم صاحب جلد اول وغیرہ شائع کروائی۔
اس کے علاوہ مولانا نجم الدین نے سفیر اسلام ، عالمی مبلغ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی مدنی علیہ الرحمۃ (والد مولانا شاہ احمد نورانی) کو مدعو کیا اور شکار پور شہر میںجلسہ میں خطاب کروایا، شکار پور وہابیت کا مرکز تھا لیکن کسی مخالف کو علامہ صاحب سے مناظرہ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی اسی طرح مناظرہ اسلام ، شیر اہل سنت حضرت علامہ محمد عمر صدیقی اچھروی علیہ الرحمۃ (والد مولانا عبدالتواب صدیقی لاہور) کو بھی شکار پور مناظرہ کیلئے مدعو کیا مگر وہابی آپ کا نام سن کر سن ہوگئے اور میدان میں آنے کی کسی کو جرأت نہ ہوسکی۔ مولانا محمدہاشم فاضل شمسی پروانشل لائبریری کی طرف سے گڑھی یاسین میں مولانا نجم الدین کا خاندانی کتب خانہ دیکھنے آئے تھے۔ وقت کے نامور خطیب و صوفی بزرگ مولانا محمد یار چشتی گڑھی ختیار خان (ضلع رحیم یار خان) کو بھی دعوت دے کر گڑھی یاسین بلوایا تھا۔ حضرت مولانا احمد یار مہر خان گڑہ شریف والے کی زیارت کی تھی۔ انہوں نے مشکوٰۃ المصابیح کا سندھی ترجمہ و حاشیہ لکھا تھا، جس کو مفتی محمد ابراہیم صاحب نے شائع کیا تھا۔
۱۔ مولانا محمد خان چانڈیو (دڑی ضلع جیکب آباد )
۲۔ مولانا قاضی حبیب اللہ (رتو ڈیرو)
۳۔ مولانا حکیم عبدالرحمن گوٹھ بھائی خان گھانگھرو تحصیل رتو ڈیرو ، دارالعلوم قاسمیہ کے فاضل علماء میں سے تھے۔
حضرت پیر سیت تراب علی شاہ راشدی (قمبر) کے توسل سے عارف کامل ، عاشق رسول حضرت مولانا سید احمد شامی سے ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء کو جب وہ ہندوستان تشریف لائے تو ان کی زیارت ہوئی وہ گڑھی یاسین بھی تشریف لائے تھے۔ مولانا سید احمدخالد شامی کے نانا کے بھائی مفتی اعظم شام علامہ سید محمد امین بن عابدین علیہ الرحمۃ (صاحب رد المحتار) تھے۔
مولانا سید محمد شاہ اور مولانا محمد ابراہیم کا ایک فقہی مسئلہ میں اختلاف ہوا تو (۱۳)ا علماء اہلسنت کا اجلاس ہوا ، دونوں حضرات نے ان میں سے مندرجہ ذیل تین علماء کو امین مقرر کیا۔
۱۔ حضرت مولان اپیر گل حسن قادری سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف
۲۔ مولانا مفتی عبدالباقی ہمایوں شریف
۳۔ حضرت مولانا نذرمحمد ساکن بھونگ تحصیل صادق آباد
مولانا تاج محدم عاریجوی اور مولانا عطا محمد مہیسر اپنے علاقہ کے مانے ہوئے علماء تھے۔ مولانا قمر الدین مہیسر (گوٹھ درگانو مہیسر تصحصیل میرو خان) ’’المھیر‘‘ نام سے ایک مجلہ کے ایڈیٹر بھی تھے اور یہ مجلہ اہل سنت جماعت کا بے باک ترجمان تھا جو اپنے گوٹھ سے شائع فرماتے تھے۔ مولانا محدم حسن کھاڑو مدیر و مالک اخبار ’’الحنیف‘‘ جیکب آباد (جس کے ممبر اس وقت کے نامور علماء تھے) اخبار، اہل سنت احناف کے تعاون سے شائع ہوتی تھی اور ان کے پاس اپنی پریس تھی وہ بھی ’’الحنیف‘‘ کے نام سے موسوم تھی۔
وہابی مولویوں سے بھی بحث مباحثہ ہوتے رہے جس میں مولوی محمد ہاشم (گوٹھ رک اسٹیشن) مولوی نبی بخش عودی اور مولوی عبدالکریم چشتی شکار پوری وغیرہ شامل ہیں۔
(مولانا نجم الدین یاسینی کے انٹریو سے مضمون اخذ کیا گیا ہے الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
تلامذہ:
٭ مولانا محمد قاسم اویسی یاسینی امام جامع مسجد گڑھی یاسین
٭ مولانا مفتی احمد صدیق سمیجو نقشبندی عمر کوٹ
وصال:
مفتی نجم الدین نجم یاسینی نے ۲۶ ذوالقعدہ ۱۳۹۹ھ بمطابق ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۹ ء شب جمع کو ۷۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی آخری آرامگاہ آپ کے استاد محترم حضرت مفتی محدم قاسم یاسینی قدس سرہ کی مزار کے برابر میں گڑھی یاسین (ضلع شکار پور) میں ہے فاضل امجد حافظ خیر محدم اوحدی شکار پوری نے درج ذیل قطعہ تاریخ وصال کہا:
چون ندائے ارجعی در گوش نجم الدین رسید
رخت بربست از جہاں بے مدارو بے بقا
خندہ رو رفت و مسرت در دل اموجزن
دراعز او احبا گریہ و ماتم بپا
شیوۂ او ذکر و فکر و شغل او علم و عمل
مدعائے او نجات و قربت و وصل خدا
قلب او معمور تراز عظمت رب جلیل
جان زار او فدائے ذات پاک مصطفی
سیرت و کردار او بے داغ بودو بے مثال
عمر خود کردہ بسر در خدمت دین ہدی
عشق او شد مستفیض از جلوہ حسن ازل
شوق بردش چون بزیر سایہ عرش علا
باسر زہداست تاریخ الوداعیش ’’اوحدی‘‘
وصل رب شادان نمودہ روح نجم الدین را
۱۳۹۲۔۔۔۔۱۳۹۹
[قطعہ تاریخ وصال جناب محمد سلام صاحب سومرو نے گڑھی یاسین سے ارسال فرمایا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)