- اسماعیل ضیائی، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد
نام: محمد اسماعیل۔
والدِ
ماجد: محمد عمر۔
ولادت: قیامِ پاکستان سے دو یا تین سال قبل یعنی ١٩٤٤ءیا
۱۹٤٥ء میں۔
مقامِ
ولادت: کاٹھیاواڑ دھورا سِٹی، انڈیا۔
تعلیم
و تربیت:
ابتدائی کتب اپنے والدِ ماجد سے پڑھیں پھر ١٩٥٧ء میں
پاکستان آنے کے بعد جامعہ مظہر العلوم میں دینی تعلیم حاصل کی جس کے مہتمم حاجی
منظور صاحب تھے جو بہت شفیق اور علما سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپ نے بحر العلوم مخزنِ
عربیہ جامع کلاتھ میں بھی پڑھا، پھر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں ١٩٦٠ء یا ١٩٦١ء میں
داخلہ لیا آپ کے ساتھیوں میں علامہ مفتی
محمد اطہر نعیمی، علامہ محمد اقبال حسین نعیمی اور یونس کشمیری نمایاں ہیں۔ ١٩٨٠ء میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا۔
یہ سب برکتیں آپ کے چچا جان محمد عثمان صاحب کی تھیں، جو مولانا حشمت علی خان
صاحب سے محبت رکھتے تھے اور اُنھی کی بدولت آپ مدرسے میں پڑھے۔
اَساتذۂ
کرام:
آپ کے
اساتذہ میں مفتی محمد عمر نعیمی، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری،علامہ قاری محمد مصلح
الدین صدّیقی، مفتی شجاعت علی قادری، مفتی غلام یاسین اور مولانا عبد المالک شامل
ہیں(رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)۔
حج و
عمرہ، بیعت و خلافت:
آپ نے کئی
مرتبہ حج و عمرہ کی سعادت پائی۔ آپ نے ١٩٧٢ء میں پہلا حج بحری جہاز سے کیا اور دریں
اثناء قطبِ مدینہ شیخ الاسلام حضرت سیّدی ضیاءالدین احمد قادری مدنی سے بیعت کا
شرف عطا ہوا جب کہ اُس وقت قطبِ مدینہکی عمر ٩٠ سال تھی۔ اُس وقت آپ کے ہمراہ
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ ازہری بھی موجود تھے۔ آپ کو تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان
بریلوی ازہری اور پاسبانِ مسلکِ اعلی حضرت
علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری نے خلافت سے نوازا۔
خدمات:
دارالعلوم
امجدیہ کراچی میں ١٩٦٩ء سے آپ نے تدریس کا آغاز فرمایا، اُس وقت آپ کی تنخواہ ٧٥ روپے تھی۔ آپ بہت زیرک
و ذہین استاد ہیں۔ آپ کے سمجھانے کا انداز نہایت سہل ہے، مشکل سے مشکل عبارت یا
مسئلہ بھی ہو تو اُسے بہت آسان اور مختصر الفاظ میں حل فرمادیتے ہیں۔ دنیا بھر میں
آپ کے تلامذہ و مریدین دینِ متین کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اولاد:
١٩٧٥ء
میں حضرت نے نکاح فرمایا، ١٩٩٠ء میں اہلیۂ محترمہ کا وصال ہوگیا۔ اُن سے تین صاحبزادے اور تین
صاحبزادیاں ہیں۔
صاحبزادگان کے نام یہ ہیں:
· مولانا محمد ابراہیم اسماعیل ضیائی(دارالعلوم غوثیہ
برکاتیہ)
· مفتی محمد عتیق اسماعیل ضیائی۔(میمن مسجد صدّیق
آباد)
· علامہ مولانا محمد یونس قادری
خلفاء:
آپ نے حضرت
علامہ مولانا سیِّدنثاراحمداخترالقادری (نائب شیخ الحدیث و امام و خطیب مسجدِ
امجدی دارالعلوم امجدیہ کراچی) مدّ
ظلّہ العالی کو خرقۂ خلافت سے نوازا۔
اجازتِ
وظیفہ:
حضرت کی
طرف سے اِس وظیفے کی تمام سنیوں کو اجازت ہے کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو ’’یَارَبُّ یَا کَافِیْ‘‘ پڑھیں اللہ تبارک و
تعالیٰ اپنے حبیبِ پاکﷺ کے صدقے تمام مشکلات کو ٹال دے گا۔
نوٹ: یہ وظیفہ حضرت کو آپ کے پیر و مرشد قطبِ مدینہ
حضرت فضیلۃ الشیخ مولانا شاہ ضیاءالدین مدنی کی طرف سے عطا ہوا۔
عادات
و اَخلاق و معمولات:
حضرت ضعف
کے باوجود دارالعلوم امجدیہ کراچی میں
بلاناغہ درسِ حدیث شریف فرماتے ہیں، بعدِ درس فتاوٰی جات تحریر فرماتے ہیں، رات کو
فاران مسجد میں تخصّص کی تعلیم دیتے ہیں، پھر محافل میں شرکت بھی فرماتے ہیں۔پانچوں
نمازیں گھر سے پیدل تشریف لاکر مسجد میں
باجماعت ادا فرماتے ہیں۔مسجد میں وقت سے پہلے تشریف لاتے ہیں اور سب سے آخر
میں تشریف لے جاتے ہیں۔آپ ہمیشہ کم گفتگو فرماتے ہیں اور نہایت ناپ تول کے فرماتے
ہیں۔ آپ کی عادات و صفات میں جو سادگی ہے اُس کی مثال واقعتاً نہیں ملتی ۔ یہاں تک
کہ لوگ نام سن کر مشتاقِ ملاقات ہوتے ہیں ، لیکن جب دیکھتے ہیں تو حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتے
ہیں کہ اِس دورِ پُر فتن میں جہاں لوگ اسلام کے نام پر تھوڑا علم حاصل کیے ہوتے ہیں
اور اوقات سے زیادہ علامہ فہامہ دکھاتے ہیں مگر اِن کی شخصیت والا صفات میں سادگی
کا جو عالَم ہے اُس کے لیے الفاظ نہیں
ملتے جیسا کہ حضرت کے قریب رہنے والے حضرات بَخوبی جانتے ہیں۔
حضرت آج بھی اپنے علم و فضل کے جوہر لٹا رہے ہیں اور آج بھی
مسندِ حدیث پر جلوہ افروز ہیں ۔اللہ کریم حضرت کا سایہ ہم فقیروں پر دراز فرمائے
اور حضرت کو صحت کے ساتھ عمرِ خضری عطا فرمائے ۔آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْم۔
ماخذ:
مختصر تعارف مشائخِ قادریہ، ص
٤٠ ، المزکز جامعة الصدر الشریعة الرضویة العالمیة بالکراتشی
- اسماعیل ضیائی، شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد
نام: محمد اسماعیل۔
والدِ
ماجد: محمد عمر۔
ولادت: قیامِ پاکستان سے دو یا تین سال قبل یعنی ١٩٤٤ءیا
۱۹٤٥ء میں۔
مقامِ
ولادت: کاٹھیاواڑ دھورا سِٹی، انڈیا۔
تعلیم
و تربیت:
ابتدائی کتب اپنے والدِ ماجد سے پڑھیں پھر ١٩٥٧ء میں
پاکستان آنے کے بعد جامعہ مظہر العلوم میں دینی تعلیم حاصل کی جس کے مہتمم حاجی
منظور صاحب تھے جو بہت شفیق اور علما سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپ نے بحر العلوم مخزنِ
عربیہ جامع کلاتھ میں بھی پڑھا، پھر دارالعلوم امجدیہ کراچی میں ١٩٦٠ء یا ١٩٦١ء میں
داخلہ لیا آپ کے ساتھیوں میں علامہ مفتی
محمد اطہر نعیمی، علامہ محمد اقبال حسین نعیمی اور یونس کشمیری نمایاں ہیں۔ ١٩٨٠ء میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا۔
یہ سب برکتیں آپ کے چچا جان محمد عثمان صاحب کی تھیں، جو مولانا حشمت علی خان
صاحب سے محبت رکھتے تھے اور اُنھی کی بدولت آپ مدرسے میں پڑھے۔
اَساتذۂ
کرام:
آپ کے
اساتذہ میں مفتی محمد عمر نعیمی، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری،علامہ قاری محمد مصلح
الدین صدّیقی، مفتی شجاعت علی قادری، مفتی غلام یاسین اور مولانا عبد المالک شامل
ہیں(رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم)۔
حج و
عمرہ، بیعت و خلافت:
آپ نے کئی
مرتبہ حج و عمرہ کی سعادت پائی۔ آپ نے ١٩٧٢ء میں پہلا حج بحری جہاز سے کیا اور دریں
اثناء قطبِ مدینہ شیخ الاسلام حضرت سیّدی ضیاءالدین احمد قادری مدنی سے بیعت کا
شرف عطا ہوا جب کہ اُس وقت قطبِ مدینہکی عمر ٩٠ سال تھی۔ اُس وقت آپ کے ہمراہ
حضرت علامہ عبد المصطفیٰ ازہری بھی موجود تھے۔ آپ کو تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان
بریلوی ازہری اور پاسبانِ مسلکِ اعلی حضرت
علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری نے خلافت سے نوازا۔
خدمات:
دارالعلوم
امجدیہ کراچی میں ١٩٦٩ء سے آپ نے تدریس کا آغاز فرمایا، اُس وقت آپ کی تنخواہ ٧٥ روپے تھی۔ آپ بہت زیرک
و ذہین استاد ہیں۔ آپ کے سمجھانے کا انداز نہایت سہل ہے، مشکل سے مشکل عبارت یا
مسئلہ بھی ہو تو اُسے بہت آسان اور مختصر الفاظ میں حل فرمادیتے ہیں۔ دنیا بھر میں
آپ کے تلامذہ و مریدین دینِ متین کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اولاد:
١٩٧٥ء
میں حضرت نے نکاح فرمایا، ١٩٩٠ء میں اہلیۂ محترمہ کا وصال ہوگیا۔ اُن سے تین صاحبزادے اور تین
صاحبزادیاں ہیں۔
صاحبزادگان کے نام یہ ہیں:
· مولانا محمد ابراہیم اسماعیل ضیائی(دارالعلوم غوثیہ
برکاتیہ)
· مفتی محمد عتیق اسماعیل ضیائی۔(میمن مسجد صدّیق
آباد)
· علامہ مولانا محمد یونس قادری
خلفاء:
آپ نے حضرت
علامہ مولانا سیِّدنثاراحمداخترالقادری (نائب شیخ الحدیث و امام و خطیب مسجدِ
امجدی دارالعلوم امجدیہ کراچی) مدّ
ظلّہ العالی کو خرقۂ خلافت سے نوازا۔
اجازتِ
وظیفہ:
حضرت کی
طرف سے اِس وظیفے کی تمام سنیوں کو اجازت ہے کہ جب کوئی مشکل پیش آئے تو ’’یَارَبُّ یَا کَافِیْ‘‘ پڑھیں اللہ تبارک و
تعالیٰ اپنے حبیبِ پاکﷺ کے صدقے تمام مشکلات کو ٹال دے گا۔
نوٹ: یہ وظیفہ حضرت کو آپ کے پیر و مرشد قطبِ مدینہ
حضرت فضیلۃ الشیخ مولانا شاہ ضیاءالدین مدنی کی طرف سے عطا ہوا۔
عادات
و اَخلاق و معمولات:
حضرت ضعف
کے باوجود دارالعلوم امجدیہ کراچی میں
بلاناغہ درسِ حدیث شریف فرماتے ہیں، بعدِ درس فتاوٰی جات تحریر فرماتے ہیں، رات کو
فاران مسجد میں تخصّص کی تعلیم دیتے ہیں، پھر محافل میں شرکت بھی فرماتے ہیں۔پانچوں
نمازیں گھر سے پیدل تشریف لاکر مسجد میں
باجماعت ادا فرماتے ہیں۔مسجد میں وقت سے پہلے تشریف لاتے ہیں اور سب سے آخر
میں تشریف لے جاتے ہیں۔آپ ہمیشہ کم گفتگو فرماتے ہیں اور نہایت ناپ تول کے فرماتے
ہیں۔ آپ کی عادات و صفات میں جو سادگی ہے اُس کی مثال واقعتاً نہیں ملتی ۔ یہاں تک
کہ لوگ نام سن کر مشتاقِ ملاقات ہوتے ہیں ، لیکن جب دیکھتے ہیں تو حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتے
ہیں کہ اِس دورِ پُر فتن میں جہاں لوگ اسلام کے نام پر تھوڑا علم حاصل کیے ہوتے ہیں
اور اوقات سے زیادہ علامہ فہامہ دکھاتے ہیں مگر اِن کی شخصیت والا صفات میں سادگی
کا جو عالَم ہے اُس کے لیے الفاظ نہیں
ملتے جیسا کہ حضرت کے قریب رہنے والے حضرات بَخوبی جانتے ہیں۔
حضرت آج بھی اپنے علم و فضل کے جوہر لٹا رہے ہیں اور آج بھی
مسندِ حدیث پر جلوہ افروز ہیں ۔اللہ کریم حضرت کا سایہ ہم فقیروں پر دراز فرمائے
اور حضرت کو صحت کے ساتھ عمرِ خضری عطا فرمائے ۔آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْم۔
ماخذ:
مختصر تعارف مشائخِ قادریہ، ص
٤٠ ، المزکز جامعة الصدر الشریعة الرضویة العالمیة بالکراتشی