مناظرِ اسلام حضرت مولانا محمد اکرم رضوی شہیدِ اہلسنت (گوجرانوالہ) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شہید میلاد ِمصطفٰی ﷺ:
نا مناسب ہوگا اگر ذکر میلاد پاک کے ضمن میں فقیر راقم الحروف(حفیظ نیازی صاحب) ایک ایسی عظیم شخصیت کا تذکرہ نہ کرے کہ جنہوں نے اپنے شب و روز میلاد مصطفٰی ﷺ کے پروگراموں کے لئے وقف کر رکھے تھے اور ان مبارک پروگراموں کی ابتداء ہی میں (۴ ربیع الاوّل ۱۴۱۵ھ/ ۱۳/اگست ۱۹۹۴ء کو) انہوں نے موضع نینوال ضلع قصور میں نماز ظہر با جماعت ادا کی، پہلے مسجد کی صفائی کی اور اذان بھی خود کہی اور بعد نماز میلاد پاک و نورا نیت مصطفٰی علیہ التحیۃ والثناء کے موضوع پر ایمان افروز خطاب فرمایا اور نماز عصر با جماعت ادا کر کے ٹھینگ موڑ جلسہ میلاد مصطفٰی ﷺ میں خطاب فرمانے کے لئے روانہ ہوئے…… تو ابھی آپ کی گاڑی نینوال سے باہر نکلی ہی تھی کہ ریلوے پھاٹک کے قریب کماد میں چھپے ہوئے منکرین میلاد ’’اہلِ حدیثوں‘‘ نے آپ کو شہید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعونo گویا کہ میلاد مصطفٰیﷺ کے مقدس مہینہ میں عاشق ِمصطفٰی ﷺمنصب شہادت پر فائز ہو گئے۔
؎شہید ملت اسلامیہ کی ہے یاد سینے میں
شہادت ان کو راس آئی نبی کے اس مہینے میں
میری مراد…… عاشق مصطفٰیﷺ، غلام ِغوث الوریٰ، محبّ اولیاء، نقیب فکر رِضا، شہید ملت اسلامیہ، فیض یافتہ پاسبان مسلک رضا، شیر اسلام، شمشیر بے نیام، فخر اہلِ سنت، مجاہد ملت، فدائے رضویت، گل گلستان صادق، حضرت مولانا علامہ الحاج ابو الحامد محمد اکرم رضوی (نور اللہ مرقدہٗ) کی ذات گرامی ہے۔؎
مہینہ تب بھی تھا ربیع الاوّل کا
جب ایک روز اچانک ہی وہ شہید ہوئے
غلام حضرتِ صادق کے تھے دل و جان سے
شہید ہو کے مکرم وہ کچھ مزید ہوئے
بفضلہٖ تعالٰی سوادِ اعظم اہلِ سنت میں مبلغین و واعظین اور خطباء و مقررین کی کمی نہیں لیکن شہید میلاد مصطفٰی ﷺمیں جو اخلاص و محبت و تبلیغ دین کے لئے جذبۂ صادقہ اور اخلاص و ایثار تھا وہ کم مقررین میں ہوگا۔ علامہ شہید اپنے ہم عصرخطباء و مقررین میں اپنی مثال آپ تھے اور آج کل کے خطباء و مقررین کے لئے رضوی شہید کا تذکرہ مبارکہ مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلاشبہ وہ اخلاص و مروّت اور وفا وحیاء کے پیکر حسین تھے …… اس سلسلہ میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک یادگار خطاب میں کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’…… علامہ محمد اکرم رضوی رحمۃ اللہ علیہ اہلِ سنت کے لئے سرمایۂ افتخار تھے، اصل میں یہ ان کی تعلیم و تربیت کا اثر تھا کہ ان کی رگ رگ میں عشق مصطفٰی ﷺ تھا، دل میں نور تھا اور عشق مصطفٰی ﷺ کی شمع روشن تھی، یہ نورانی تعلیم و تربیت انہوں نے فخر اہلِ سنت شیخ طریقت حضرت مولانا ابو داؤد محمد صادق صاحب سے حاصل کی تھی، یہ ان کی برکت تھی……‘‘
؎ وہ پیر و کار تھے قبلہ ابوداؤد صادق کے
جبھی تو باصداقت حضرتِ علامہ رضوی تھے
دیدارِ مصطفٰی ﷺ:
علامہ رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ عاشق رسول تھے…… حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر خیر کرتے کرتے خود بھی روتے اور لوگوں کو بھی رُلا دیتے اور جب بھی کسی عاشق سے حضور ﷺ کی نعت پاک سنتے تو محبت میں اشک بار ہو جاتے، ان کا یہی سچا جذبہ رنگ لایا کہ جس کی بدولت انہیں خواب میں توبا رہا حضور ﷺ کا دیدار نصیب ہوا اور بیداری میں بھی ایک مرتبہ یہ عظیم المرتبت شرف حاصل ہوگیا اور کرم بالائے کرم یہ ہوا کہ (اسی عشق و محبت کی بدولت) آپ کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے ’’مجاہد ملت‘‘ کا لقب بھی عطا فرمایا گیا (فالحمدللہ علیٰ ذالک)، جس کی تفصیل علامہ رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت نباض قوم مدظلہ کی کتاب ’’سوانح شہید اہلِ سنت‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ے۔
؎بھرا تھا عشق اپنا مصطفٰی نے اس کے سینے میں
سراپا عشق تھا، ایمان تھا، عرفان تھا رضوی
پیر خانے سے وابستگی:
کے سلسلہ میں صاحبزادہ محمد عطاءالرحمٰن رضوی رقم طراز ہیں ’’علامہ رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ، سرمایۂ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا مفتی ابو داؤد محمد صادق صاحب مدظلہ العالی کے کامل مرید تھے، اٹھتے بیٹھتے مرشد کامل کی عظمت و عنایت کا اعتراف کرتے رہتے تھے، مرکز اہلِ سنت زینت المساجد (گوجر انوالہ) میں ہونے والے جلسوں میں حاضری دیتے تو خود کو خطیب پاکستان کہنے نہ دیتے بکہ سگ دربار رضویت کہلانے پر اصرار کرتے، اکثر بغیر دعوت ہی جلسہ میں حاضر ہوجاتے، خود راقم الحروف نے دیکھا کہ کبھی تو جلسہ میں تلاوت کرتے، کبھی نعت شریف پڑھتے ، حکم ہوتا تو بیان بھی کرتے، کبھی نقیب محفل کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوتی۔ ان کی ہی نیاز مندی اور فرمانبرداری تھی جس کی بدولت حضرت صاحب نے ان کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ ان کی وجہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کو بھی بڑا فروغ ملا۔ کئی برادر ان طریقت سے جب بیعت ہونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے رضوی صاحب سے متاثر ہو کر یا ان کے ترغیب دینے پر حضرت صاحب سے بیعت ہونے کا ذکر کیا‘‘۔
ابوداؤؔد نے اس کو بنایا عاشق صادؔق
صداقت کا حسیں اس دور میں عنوان تھا رضوی
گویا کہ رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ ’’فنافی الشیخ‘‘ کے منصب پر فائز تھے اور جہاں ان کو حضرت نباض قوم مدظلہ کا شاگرد خاص و مرید صادق ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہاں ان کو یہ شرف بھی نصیب ہوا کہ ان کا نکاح بھی ان کے پیر و مرشد نے پڑھایا اور ان کی اپنے شیخ کامل سے اسی والہانہ عقیدت و محبت ہی کا نظارہ تھا کہ شہادت کے بعد ان کا جنازہ مبارکہ اپنے آقائے نعمت (حضرت نباض قوم مدظلہ) کے دفتر کے دروازہ کے سامنے رکھ کر اٹھایا گیا تو اس بات کا عملی مظاہرہ و مشاہدہ ہوگیا کہ
؎ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اور کوچۂ محبوب سے ذرا گھوم کے نکلے
بعد ازاں علامہ رضوی شہید کا تاریخی جنازہ ان کے محسن و مربی علامہ ابو داؤد محمد صادق صاحب مدظلہ نے پڑھایا، جس میں جید علماء و مشائخ کے علاوہ ہزاروں عشاقان ِمصطفیٰ ﷺنے شرکت کی سعادت حاصل کی اور رضوی شہید اس شرف میں بھی منفرد ہیں کہ ان کے پیر و مرشد اپنے مرید با وفا کا عرس مبارک ہر سال منا کر ان کی عظمت و شان کو مزید اجاگر فرماتے ہیں…… کیونکہ حضرت صاحب مدظلہ نے رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے والد محترم سے خصوصی طور پر مانگ کر لیا تھا اور پھر ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ علامہ رضوی شہید عالمی شہرت یافتہ خطیب و مناظر و عالم باعمل بن گئے۔ اپنے مرید پر بے حد شفقت و نوازش فرماتے ہوئے حضرت نباض قوم مدظلہ رقم طراز ہیں: ’’ …… میرے نہایت ہی عزیز و قریب روحانی فرزند، باحیاؤ باوفا، مجاہد ملت، محبوب اہلِ سنت، عالم باعمل، شیر اسلام، عاشق رسول و شہید فی سبیل اللہ مولانا صوفی محمد اکرم رضوی رحمۃ اللہ علیہ کو قدرت نے خوف خدا، عشق مصطفٰی ﷺدردِ دین و جذبۂ تبلیغ و استقلال و خلوص بفضلہٖ تعالیٰ تمام علماء خطباء کی نسبت بہت زیادہ عطا کیا تھا۔ فقیر (ابوداؤد محمد صادق) نے مرحوم کو خدمت دین کے لئے ان کے والد صاحب (حاجی محمد بشیر بٹ) سے مانگ کر لیا تھا جب انہوں نے مولانا مرحوم کو کسی دنیاوی کاروبار میں مشغول کرنے اک ارادہ کیا تو فقیر نے مولانا مرحوم کے والد سے کہا کہ ’’خدا تعالٰی نے آپ کو اور بھی فرزند عطا کئے ہیں، جو دنیاوی کاروبار کے لئے کافی ہیں، لہٰذا محمد اکرم کو علم دین پڑھنے اور خدمت دین کرنے کے لئے ہمیں دے دیں اور اسے فی سبیل اللہ وقف کردیں‘‘۔ خدا ان کا بھلا کرے کہ انہوں نے فقیر کی بات مان لی اور اپنا یہ ہونہار بیٹا ہمیں دے دیا، جسے مولیٰ تعالیٰ نے بہت جلد اپنے ہم جماعت طلباء و پھر علماء خطباء میں بہت ممتاز و قابل رشک مقام عطا فرمایا، یہاں تک کہ وہ اپنے خلوص و جذبۂ عشق اور نیکو کاری و حق گوئی کی بناء پر آسمان علم و خطابت پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکنے لگا اور جہالت و ضلالت کی ظلمتوں کے پردے چاک کرنے لگا…… وہ فیض رضا سے مالا مال ہوگیا اور اس نسبتِ رضوی کی اتنی شہرت ہوئی کہ ’’سنی رضوی بریلوی‘‘ علماء کرام میں وہ پہلے عالم و خطیب ہی کہ ’’رضوی‘‘ جن کے نام کا جزو بن گیا ہے اور انہیں بین الاقوامی اور دائمی طور پر مولانا محمد اکرم رضوی، محمد اکرم رضوی اور اکرم رضوی کے نام سے شہرت دوام حاصل ہوئی ہے۔
؎ ایں سعادت بزور باز و نیست……تا نہ بخشند خدائے بخشذہ
(خادم اہلِ سنت ابو داؤد محمد صادق)‘‘
المختصر: علامہ رضوی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی خوش قسمتی و سعادت مندی ہے کہ جب بھی ربیع الاوّل شریف کا مبارک مہینہ تشریف لائے گا تو میلاد پاک کی برکت سے شہید میلاد مصطفٰی ﷺ کی یاد بھی ہمیشہ تازہ ہوتی رہے گی کیونکہ
؎آفتاب رضویت تابندہ تھا، تابندہ ہے
سن لیں اعداء آج بھی، اکؔرم رضوی زندہ ہے
؎ جب تک سورج چاند رہے گا، رضوی تیرا نام رہے گا