حضرت مولانا محمد اعظم خان رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی:مولانا محمد اعظم خان ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا محمد اعظم خان بن جناب سعادت یارخان بن جناب محمد سعید اللہ خان بن عبدالرحمن بن یوسف خان قندھاری بن دولت خان بن داؤد خان۔(علیہم الرحمہ)
سیرت وخصائص: آپ سلطان محمد شاہ کے وزیرِ خزانہ جناب سعادت یارخان کے فرزندِ اکبر نیک اختر تھے۔آپ بھی دربارِ شاہی سے وابستہ ،اور مناصبِ علیاء پرفائزتھے۔لیکن آپ کامیلانِ طبعی دربارِ شاہی سے زیادہ دربارِ خداوندی کی طرف تھا۔اس لئے آپ نے درباری مراعات ومناصب سے کنارہ کشی اختیارکرلی۔عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے۔آپ سب سے پہلےبریلی تشریف فرما ہوئے، اور متبتل الی اللہ ہو کر زہد خالص و ترک دنیا اختیار فرمایا۔ " شاہزادہ کا تکیہ "جو محلہ "معمار ان بریلی" میں ہے، آج بھی انہیں کی نسبت سے مشہور ہے۔ آپ نے وہیں قیام فرما لیا تھا، اور وہیں آپ کا مزار ہے۔
کمالِ استغناء: آپ کے صاحبزادے جناب حافظ محمد کاظم علی خاں صاحب ہر پنجشنبہ(جمعرات) کو سلام کے لیے حاضر ہوتے اور گراں قدر رقم حاضرِ خدمت کیا کرتے ۔ ایک مرتبہ جاڑے (سردی)کے موسم میں جب حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت شاہ محمد اعظم خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس موسم سرما میں ایک دھونی کے دھرے کے پاس تشریف فرما ہیں، اور اس سخت سردی میں جسم پر کوئی گرم پوشاک بھی نہیں۔ حافظ کاظم علی خاں صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا بیش بہا دوشالہ اتار کر اپنے والد ماجد صاحب کو اوڑھا دیا۔ حضرت موصوف نے نہایت ہی استغنا ءسے اتار کر آگ میں رکھ دیا۔ حافظ صاحب کے دل میں خیال پیدا ہوا: کاش! اسے اور کسی کو عطا فرما دیا جاتاتوکتنی اچھاتھاکہ جلنے سے بچ جاتااور کسی کے کام آجاتا۔ حافظ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ آنا تھا کہ حضرت شاہ صاحب نے آگ کے بھڑکتے ہوئے انگاروں میں سے دوشالہ کھینچ کر پھینک دیا اور فرمایا:"کاظم! فقیر کے یہاں پکڑ دھکڑ کا معاملہ نہیں، لے اپنا دوشالہ"دیکھا تو اس دوشالا میں آگ نے کچھ اثر نہ کیا تھا ویسا ہی صاف و شفاف برآمد ہوا۔
یہ کرامت اس معجزۂ نبوی ﷺ کا مظہر و نمونہ تھی کہ جس دسترخوان پر حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے یہاں حضور اقدس ﷺنے کھانا تناول فرمایا اور دست اقدس، دہن مبارک اس سے مس فرمایا تھا۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک دعوت میں جب کہ وہ دسترخوان کثرت استعمال سے میلا ہو گیا تھا، اُسے دہکتے تنّور میں ڈال دیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب اسے نکالا تو صاف و شفاف تھا، کہیں میل کا نام و نشان بھی نہ تھا یہ کرامت اسی معجزہ کی مظہر تھی۔
وصال: مختلف تاریخی شواہد سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ کاوصال 1815ء کےقریب ہواہے۔آپ کامزار بریلی شریف میں ہے۔
ماخذومراجع: حیاتِ اعلیٰ حضرت۔حیات مولانا نقی علی خان۔