امین الفتویٰ مفتی محمد شفیع احمد بیسل پوری
خلیفہ اعلیٰ حضرت، امین الفتویٰ، حضرت مولانا مفتی شفیع احمد بیسل پوری۔ آپ جید عالم دین و مدرس صاحب تقویٰ و فضیلت، واعظ اور مفتی ِاسلام تھے۔شعبان المعظم 1301ھ کو بمقام بیسل پور ضلع پیلی بھیت یوپی ہند میں پیدا ہوئے۔ آپ فاتح روہیل کھنڈ حافظ رحمت خاں کے سپہ سالار عبد الرشید خاں کی اولاد میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد ہی سے حاصل کی۔علم حدیث اور درس نظامی کی کتب کی تکمیل حضرت شیخ المحدثین وصی احمد محدث سورتی سے کی۔ آپ فہم و فراست اور علم و عمل کا مجسم پیکر تھے۔ آپ کی شادی حضرت محدث سورتی کی صاحبزادی حلیم النساء سے انجام پائی؛ جو نہایت پارسااور عالمہ تھیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں جب ایک مرتبہ پیلی بھیت تشریف لائے تو آپ کی نگاہ انتخاب مولانا شفیع احمد پر پڑی، چنانچہ آپ کو اپنے ہمراہ بریلی لے گئےاور فتاویٰ نویسی و کتب خانہ کی نگرانی سپرد کی۔بعد میں آپ نے فاضل بریلوی کی شفقت و محبت کے نتیجے میں دست مبارک پر بیعت کی؛ اور اعلیٰ حضرت نے آپ کو خلافت و اجازت بھی عطافرمائی، اور ’’امین الفتویٰ‘‘ کا لقب عطاکیا۔اعلیٰ حضرت جن شاگردوں اور مریدوں کو بے پناہ چاہتے تھےان میں مولانا شفیع بیسل پوری بھی سرفہرست تھے۔آپ نےنہایت کم عمری میں 24؍ رمضان المبارک 1338ھ ، بروز جمعۃ المبارک انتقال فرمایا ، اور بیسل پور میں سپرد خاک ہوئے اور زیارت گاہ آج بھی مرجع خاص و عام ہے۔
حضرت مولانا شفیع احمد بلا شبہ علمی کمالات اور زہد و تقویٰ میں ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔اپنے پیرو مرشد اعلیٰ حضرت والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔بلکہ آپ ’’فنافی الشیخ‘‘ کے مقام پر فائزتھے۔آپ کو اپنے مرشد برحق کی جدائی گوارہ نہ تھی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ اپنے مرشد کامل کےنام بھیجے ہوئے مکتوب سے بھی ہوتا ہے۔جس میں آپنے لکھا:’’مولیٰ تعالیٰ اپنے پیارے حبیبﷺ کے صدقےمیں مجھے تمام عمر حضور(اعلیٰ حضرت) کی حضوری میں رکھےاور حضور کے سامنے باایمان اٹھائے‘‘۔ مولانا شفیع احمد کی یہ دعا اگرچہ اس وقت مانگی تھی جب آپ کا آغاز شباب تھا اور فاضل بریلوی کادور پیرانہ سالی کامگر چونکہ اخلاص قلب کےساتھ بارگاہ الہی میں دعا کی تھی اس لیے بارگاہ رب العزت میں قبول ہوئی، اور عین شباب37 سال کی مختصر عمر میں جمعۃ الوداع کو مرشد کریم کی حیات میں تپ کی حالت میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ امام احمد رضا خاں نے پڑھائی اور مجمع کثیر نے آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی اور مولانا بیسل پوری کو آپ ہی کے مملوکہ باغ میں دفن کیا گیا اور یوں مرید با صفا کا منہ سے نکلا ہوا کلمہ پورا ہوگیا کہ ’’حضور(اعلیٰ حضرت) کے سامنے موت آئے‘‘۔
اعلیٰ حضرت نے آپ کی گوناگوں خصوصیات اور علمی جلالت کی قدر کی بنا پر آپ سے بہت شفقت فرماتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے وصال پرملال کے موقع پر اپنے مرید باصفا کےلئے تاریخی قطعہ قلم بند فرمایاجس میں نہ صرف مولانا بیسل پوری کے محاسن اور خوبیوں کی نشاندہی ہے بلکہ آپ کی علمی وجاہت زہد و اتقاء اور فتویٰ سے دل چسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے آپ کے وصال پر قطعہ تاریخ کےساتھ ان سے محبت کااظہار فرمایا ہے۔
اہل الفتویٰ شفیع احمد اہل التقویٰ شفیع احمد
سنی حنفی و قادری تھا سچا پکا شفیع احمد
تھا مفتی و واعظ و مدرس فضلوں والا شفیع احمد
مرگ صدہا سے سخت ترہے تیرا مرناشفیع احمد
مجھ کو کوئی امینِ فتویٰ تجھ سا نہ ملا شفیع احمد
ہے چار شہادتوں کا جامع گر چاہے خدا شفیع احمد
جمعہ، رمضان، تپ، تعلیم طوبیٰ لایا شفیع احمد
امید ہے نزع و قبر میں ہو شافع مرا شفیع احمد
تاریخ لکھی رضاؔ نے فوراً یا رب تیرا شفیع احمد
1338ھ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں نے اپنی مشہور دعائے احباب و اصحاب میں اپنے مرید و تلمیذو خلیفہ ٔخاص مولانا شفیع احمد بیسل پوری کےلئے اس طرح فرمایا ہے:
تازہ ضرب شفیع احمد سے کہنہ بخار اٹھاتے ہیں یہ
مولانا شفیع احمد بیسل پوری کو عشق رسولﷺ کا جذبہ اپنے پیر و مرشد سے ملاتھااو ر آپ نے بھی عشق مصطفیٰ علیہ التحیۃ و الثناء میں سرشار ہوکر ایسی ایسی نعتیں لکھی ہیں کہ جن کو پڑھ کر دل و دماغ دونوں سرور حاصل کرتے ہیں، اور ایمان میں حرارت پیدا کردیتی ہیں آپ کا مختصر دیوان آج بھی محفوظ ہے یہاں صرف ایک نعت بطور نمونہ پیش کی جارہی ہے
یوں مشک سے افزوں ہے کہیں عرق بدن میں نافہ ہوا بیکار ہر ایک ملک میں
مردہ ہوں اگر میں، تو ہوں اے میرے مسیحا تم آؤ تو آجائے ابھی جان بدن میں
بندہ ہے گرفتار الم آپ کا مولا آزاد کرو صدقہ رخسار و ذقن میں
تاخیر نہ کر چل طرف وادی بطحا وہ دشت ہی اچھاہے دھرا کیا ہے وطن میں
کیا ہوگا تخلص کا غرض نعت نبی ہے شہرت مجھے منظور نہیں اہل سخن میں
آپ نے متعدد علمی و فقہی موضوعات پر مبسوط مضامین تحریر فرمائے جو تحفہ حنفیہ پٹنہ اور الفقیہ امرتسر میں پابند ی کےساتھ شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ قلمی نعتیہ دیوان اور مجموعہ فتاویٰ علمی یادگار ہیں۔مولانا بیسل پوری نے شاعری کے ذوق کے ساتھ ساتھ علمی و فقہی موضوعات پر بھی اہم مضامین قلم بند کیےتھے۔ جووقتا فوقتا تحفہ پٹنہ اور الفقیہ امرتسر میں شائع ہوتے رہے۔ آپ کی نرینہ اولاد کوئی نہ تھی البتہ دوبھائی تھے۔ ایک دوران تعلیم وصال پاگئےدوسرے حقیقی بھائی مولانا طفیل احمد تادیر حیات رہےاور انہیں مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خاں سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔ ان کے صاحبزادے کانام مولانا مصداق حیات تھا۔
ماخذ و مراجع: خلفاء اعلیٰ حضرت، از مولانا قصوری/ تذکرہ محدث سورتی۔