حضرت مولانا محمد عمر لاکھو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
میاں محمد عمر بن حکیم مولانا میاں محمد حسین لاکھو گوٹھ و ددو بگھیہ ضلع نواب شاہ میں ۱۳۱۹ھ کو تولد ہوئے۔ آپ کی ولادت پر ولی اللہ حضرت حافظ میاں محمد ابراہیم لاکھو بہت مسرور ہوئے۔ اور اپنے پوتے کو ہاتھوں میں اٹھا کر کانوں میں اذان و تکبیر کہی۔
تعلیم و تربیت:
میاں محمد عمر نے ابتدائی تعلیم (قرآن مجید ، فارسی اور بعض عربی کتب) اپنے والد محترم سے حاصل کی ۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک تعلیم کو موقوف کردیا۔ ایک بار اپنے ہم درس اور رضائی بھائی مفتی محمد دائود بگھیو سے ملاقات پر تعلیم کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں مشورہ لیا اور پھر حصول علم کیلئے سفر پر روانہ ہوگئے اور علامہ مخدوم امیر احمد عباسی کے گوٹھ جاکر ان سے استفادہ کیا۔ اور اپنے والد محترم میان محمد حسین لاکھو کے پاس نصاب کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔
میاں محمد عمر نے اپنے نواسہ حکیم غلام رسول لاکھو کو بتایا کہ مخدوم امیر احمد صاحب عمر میں ہم سے اصغر تھے لیکن علوم میں اکبر ۔
درس و تدریس:
اپنے والد و استاد میاں محمد حسین کے ہاں دوران تعلیم ، ان کے زیر سایہ درس کا عمل بھی جاری کئے ہوئے تھے۔ اور باقاعدہ تدریس کا عمل بعد فراغت جاری کیا۔ مدرسہ کے ساتھ ملا اسکول قائم کروایا جس کے ہیڈ معلم مقرر ہوئے اور آپ کے بھائی محمد صڈیق لاکھو کام کاج میں ساتھی اور اسکول میں استاد تھے۔
آپ نے درس و تدریس کا عمل ساری زندگی جاری رکھا اپنے مدرسہ کے علاوہ دیگر بستیوں مثلاً گوٹھ مانک جو باغ، گتوٹھ عاقلانی اور پڈ عیدن کے متصل ایک گوٹھ میں در۴س دیا۔ اور بروز جمعہ گوٹھ مانک جو باغ میں خطاب فرماتے اور جمعہ پڑھاتے تھے۔
بیعت:
مولانامحمد عمر لاکھو، درگاہ خنیاری شریف (ضلع نواب شاہ ) کے کسی پیر صاحب سے ارادت رکھتے تھے اور اکثر درگاہ شریف پر حاضری دیتے تھے۔
تلامذہ:
آپ کے درس سے مستفیض طلباء میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ مفتی محمود بگھیو
٭ مولانا محمد ابراہیم اوٹھو
٭ حاجی فیض محمد کوری
٭ حکیم مولانا محمد صالح لاکھو
٭ حکیم غلام رسول لاکھو شاہ پور جھانیہ
٭ اور اپنی بیوی کو فارسی کی تعلیم دی۔
تصنیف و تالیف:
میاں محمد عمر نے درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی کیا۔ بعض تصانیف کا علم ہو سکا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
٭ سرور کائنات ﷺ (سندھی) نبی کریم ﷺ کی شان و عظمت میں ہے۔مطبوعہ آر ایچ احمد حیدرآباد سندھ
٭ سوانح حضرت ایزید بسطامی۔ مطبوعہ آر ایچ احمد حیدر آباد سندھ
٭ منبھات ابن حجر عسقلانی۔ کا سندھی ترجمہ کیا اور بعد وفات وہ مسودہ گم ہوگیا کوئی ادب پرور ساتھ لے گیا اور دوبارہ پلٹ کر نہ آیا۔
٭ ببر کی خاصیت ۔ ببر(ببول) درخت کی خاصیت پر رقم فرمایا۔
٭ مجموعہ کلام
شاعری:
میاں محمد عمر نے فارسی اور سندھی میں شاعری کی۔مثنوی ، کافی اور غزل کی صنف میں بامقصد شاعری کی ہے۔ عمر، عمر الدین اور کبھی احق و مفتون تخلص استعمال میں لائے۔
حرمین شریفین:
میاں محمد عمر نے دوبار حجاز مقدس کا سفر اختیار کیا۔ حج کے بعد مدینہ منورہ حاضری دی، پاک پیغمبر ﷺ کے آستانہ مبارکہ سنہری جالیوں کے سامنے سراپا احترام بن کر درود و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ ۱۹۵۰ء میں دوسری بار حج کرنے کا ارادہ کرلیا ان دنوں گوٹھ دو دو بگھیہ میں قیام تھا اور سفر حج کیلئے اخراجات نہ ہونے کی صورت میں اپنی زمین بیچ دی، رشتہ داروں نے زمین بیچنے سے سختی سے منع کی لیکن اس متوکل بندے نے حضور پر نور ﷺ کے دربار مقدس کی حاضری کو زمین پر ترجیح دی اور زمین بیچ کر سفر حرمین اختیار کیا۔ آقا علیہ السلام کے حضور حاضری دے کر یوں محسوس کیا جیسے بے قرار دل کو قرار مل گیا۔
شادی و اولاد:
میاں محمد عمر نے دو شادیاں کیں۔ اپنے والد کے حکم سے پہلی شادی ایک بیوہ عورت سے کی، اس کے بطن سے ایک بیٹی تولد ہوئی، اس بیٹی سے حکیم غلام رسول لاکھو (مہران طیبہ کالج مورو) تولد ہوئے۔ دوسری شادی خاندان میں سے کی اس کے بطن سے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ چار بیٹے جوانی میں انتقال کر گئے۔ ایک بیٹا میاں عبدالرحمن لاکھو حیات اور صاحب اولاد ہے۔
وصال:
میاں محمد عمر آخر عمر میں اپنے سسرال کے ’’گوٹھ بھارجی کور‘‘ نقل مکانی کر گئے۔ وہاں بھی درس و تدریس اورع حکمت کا مشغلہ جاری رکھا۔ سارا دن مسجد و مدرسہ میں بسر کرتیتھے دین کے مخلص، ایک عالم با عمل اور عاشق رسول تھے۔
۲۰ صفر المظفر ۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹ء کو ۷۰ سال کی عمر میں انتقال کیا اور اسی گوٹھ میں مدفون ہیں۔
’حکیم غلام رسول صاحب لاکھو نے مواد مہیا کیا۔ جس کیلئے فقیر مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)