فقیہ افخم حضرت مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ
عارف باللہ حضرت مخدوم نور اللہ نورنگ رحمتہ اللہ علیہ (متوفی ۹۹۴ھ) کے خاندان کے چشم و چراغ ، رجال السند کے سر فراز موتی ، نامور عالم دین ، فقیہ افخم حضرت مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ سنی حنفی قادری کی ولادت گوٹھ کھورواہ (تحصیل گولا رچی ضلع بدین ) میں حافظ محمد کے گھر ہوئی۔
نور نگ کی وجہ تسمیہ :
مخدوم نور اللہ کو کسی معترض نے طنزیہ کہا :پیری مرید ی کے لئے شرط ہے کہ سید ہوں اور تم کون ہو؟(یعنی تم سید نہیں ہو لہذا بزرگ نہیں ہو) مخدوم صاحب نے جیب سے مسواک نکال کر فرمایا: یہ میری پہچان ہے یہ کہہ کر مسواک کو زمین میں گاڑ ا تو ایک ہی دن ان میں نو(۹) رنگ دیکھنے میں آئے۔ اس کرامت کے بعد آپ نور نگ سے مشہور ہوئے ۔ (السند )
مسجد کی بنیاد:
امام العارفین پیر صاحب روضے دہنی قدس سرہ الاقدس کے خلیفہ عارف باللہ حضرت محمود نظامانی ؒ (۱۲۶۷ھ)کے مرید ین میںسے ایک مریدبمبئی (انڈیا) کے بڑے تاجر تھے ۔ چینی (شکر ) سے بھرا ہوا جہاز بمبئی سے کراچی لارہے تھے کہ جہاز کو ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوا۔ جس کے سبب اس نے نذر مانی کہ یاخدا!اگر جہاز ڈوبنے سے بچ گیا تو سات مساجد سات پکے کنویں فی سبیل اللہ بنواوٗں گا۔ کھورواہ کے میمن ، خلیفہ صاحب کے مرید تھے اور کھور واہ میں اس سے قبل مسجد نہیں تھی ۔ تاجر کی منت پوری ہوئی تو اپنا وعدہ پورا کیا۔ خلیفہ صاحب کی نشاندہی پر مساجد اور کنویں بنوائے ۔ خلیفہ صاحب کے کہنے پر کھورواہ میں ایک مسجد شریف اور پکا کنواں بنوایا۔ مسجد شریف کی امامت کیلئے خلیفہ صاحب نے مولانا محمد عثمان نورنگ کے والد حافظ محمد صاحب کو مقرر کیا جو کہ خلیفہ صاحب کے مرید خاص تھے ۔ اس کے بعد اس خاندان نے ہمیشہ کیلئے کھورواہ میں سکونت اختیار کی۔ (السند ۳۷)
مخدوم نور اللہ نورنگ سہروردی ذات کے سومرہ اور ملتان شریف کے بزرگ کی طرف سے لاڑ میں خلیفہ تھے۔ پیدا گھم کوٹ(ضلع حیدرآباد ) میں ہوئے جہاں آپ کا مدرسہ تھا اور آپ کا روضہ شریف ٹنڈو غلام حیدر تحصیل گولا رچی میں ہے ۔ آپ کی اولاد نورنگ زادہ کہلواتی ہے۔
(جنت السند (سندھی )ص ۳۳۸)
تعلیم و تربیت:
مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ نے وقت کے نامور جید علماء سے حدیث ، تفسیر ، فقہ ، منطق ، فلسفہ ، تاریخ اورتصوف کی تعلیم حاصل کر کے مخدوم نورنگ کے تاریخی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔
تصنیف و تالیف :
نیاز ہمایونی رقمطراز ہیں : مولانا محمد عثمان عالم دین کے ساتھ ساتھ طب ، جفر اور نجوم سے بھی دلچپسی رکھتے تھے۔ ( سندھ کی طبی تاریخ جلد دوم ص ۶۱۲مطبوعہ ۱۹۷۶ئ)
مولانا محمد عثمان کثیر التعداد تصنیف بزرگ تھے، درج ذیل تصانیف معلوم ہو سکی ہیں :
٭ تحفۃ المسلیمین (نور محمد یﷺ کا بھی بیان ہے )
٭ تحفۃ الاسلام ۵جلد توحید رسالت ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ کے مسائل پر مشتمل
٭ کیمیائے کرامات یعنی کرامات غوث اعظم (سندھی)
٭ ھدیۃ الندیۃ فی جواز الخطبۃ بلسان الھندیہ
٭ اکسیر کالاحمر فی اسرار الجفر مطبوعہ ۱۸۵۱ء
٭ خطبات عثمانی جمعہ کے خطبات بزبان سندھی نظم
٭ قصیدہ غوثیہ کا سلیس سندھی میں ترجمہ کیا
٭ ترجمہ فتوح الغیب ۔ سر کار غوث اعظم کی کتاب کا سندھی ترجمہ عرصہ پہلے شائع ہوا، اب نایاب ہے۔
٭ بینات القرآن لھدایۃ العصیان ( سندھی ) مطبوعہ بمبئی طبع قدیم
٭ عجیب العجائب
٭ راہ نجات
٭ نماز اشراق (نفل ) کی فضیلت
تفسیر تنویر الایمان (سندھی ) آپ کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔ حقیقت میں آپ نے چند پارے لکھے اور اس میں بھی ردو بدل ہوئی ۔ اس سلسلہ میں راقم راشدی کا مضمون ’’مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ کا مسلک ‘‘ماہنامہ الراشد کنگری کے شمارہ جمادی الاول سن ۱۴۲۲ھ میں ملا حظہ فرمائیں ۔
درس وتدریس:
حسن علی آفندی نے مسلمانوں کی تعلیم و تنظیم کے لئے جب کراچی میں تاریخی درسگاہ ’’سندھ مدرسۃالاسلام ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ تو مولانا صاحب نے آفندی کا ساتھ دیا اور سن ۱۸۵۰ء میں سندھ مدرسہ الاسلام کراچی کے ’’معلم الفقہ ‘‘مقرر ہوئے۔
مولانا صاحب جید عالم ، فقیہ ، مفتی ، صوفی ، مفسر ، مورخ ، شاعر کے علاوہ علم طب، علم نجوم ، رمل اور جفر کی بھی مہارت تامہ رکھتے تھے ۔ سندھ مدرسۃ الاسلام میں دوران تعلیم بے شمارفرزندان اسلام نے آپ سے دینی تعلیم حاصل کی ۔ ان دنوں سندھ مدرسۃ الاسلام سے ایک ماہنامہ جاری ہوا جس کے آپ پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ مجلہ میں آپ کے فکر انگیز مضامین اور نعتیہ شاعری شائع ہوتی تھی۔
شاعری :
سصپ بلند پایہ کے شاعر تھے ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی نے ’’ نعتیہ شاعری ‘‘میں آپ کی ایک نعت نقل کی ہے ۔ اس کے علاوہ خطبات عثمانی منظوم سندھی خطبات پر مشتمل ہے۔ سر کار غوث اعظم کی شان میں طویل منقبت ، اپنے جداعلیٰ مخدوم نورنگ کی شان میں طویل منقبت اور مرشد مربی پیر سائیں بیعت دہنی کی شان میں طویل مناقب وغیرہ آپ کی شاعری کے اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ آپ اس طرح نظم میں اپنے نظریات احساسات جذبات کا بھی اظہار فرماتے رہے۔ یہ تو مطبوعہ مواد ہے اور غیر مطبوعہ مواد اکثر ضائع ہو گیا۔
بیعت:
حضرت مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ ، شمس العارفین ، واقف اسرار ورموز حقیقت ، غوث الزمان ، حضرت خواجہ پیر سید محمد رشید الدین شاہ راشدی المعروف پیر صاحب بیعت دہنیقدس سرہ الاقدس (درگاہ شریف پیرصاحب جھنڈے دہنی ضلع حیدر آباد) کے دست اقدس پر بیعت ہو کر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں داخل ہوئے ۔ مولانا کو سرکار غوث اعظم اور اپنے پیرو مرشد سے بے پناہ محبت تھی ، اسی محبت میں زندگی گذاری اور اسی محبت سے اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اس کے ثبوت میں آپ کی تصنیف کیمیائے کرامات ، خطبات عثمانی اور تحفۃ المسلمین پیش کی جا سکتی ہیں ۔ اور اپنے پیرو مرشد کو ان القابات سے یاد کیا ہے:
استغاثہ بدر گاہ عرش اشتباہ، ملجاء الغربا ء ،ماوا ء الفقرا ء ، کہف الوری ، منظور نظر حضرت سید الانبیاء ، محبوب رب العلاء ، غوث الزمان ، قطب الدوران ، ہادی گمراہان، داعی الخلق الی اللہ حضرت مرشد ناو مولانا پیر سائیں صاحب العلم رشید الدین شاہ جھنڈے دہنی ادام اللہ تعالیٰ برکاتہ و فیو ضاتہ ۔ (مولانا عثمان کا مسلک ، الراشد ) ۔ دوسرے مقام پر اپنے مرشد کریم کیلئے درج ذیل القابات درج کئے ہیں :۔
ہادی گمراہاں ، دستگیر بے کساں ، مرشد ارشد دوران ، مربی مکمل ۔ ( تنویر الایمان جلد اول دیباچہ )
آپ کا مسلک :
اس موضوع پر فقیر نے مفصل مضمون رقم کیا ہے ، یہاں ایک جھلک پیش خدمت ہے۔ مولانا محمد عثمان نے ایک نعت سندھی زبان میں رقم فرمائی جو کہ ۲۵مصرعہ پر مشتمل ہے اس نعت میں ندا کے الفاظ بھی ہیں :
یارسول اللہ! یا خیر النبی
یاحبیب اللہ!یا خیر الوریٰ
یا شفیع الخلق!یانور الھدیٰ
(خطبات عثمانی)
اپنی ایک کتاب میں رقم فرماتے ہیں :۔ یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے مقدس نور سے حضور انور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور مبارک پیدا کیا۔ (تحفۃالمسلمین ص۱)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی امت کے گنہگار وں کو دوزخ سے نکلوا کے جنت کو لے جائیں گے (تحفۃ المسلمین ص۶۱) ۔ ایک مقام پر سر کار غوث اعظم ، محبوب سبحانی ، قطب ربانی ، مرشد حقائی ، شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( بغداد شریف ) کی شان میں درج ذیل فارسی شعرندا سے متعلق درج فرما کر اپنے مبارک مسلک کا اعلان فرما دیا:
یاغوث اعظم پاک وقت مدد است
شد سینہ زدرد چاک وقت مدد است
مہر چند کا وارہ و خستہ خاطریم
لاحد زلنا سواک وقت مدد است
ایک سندھی منقبت میں دربار غوثیہ میں یوں عرض کرتے ہیں :
المدد یاغوث اعظم دستگیر
الغیاث اے حضرت پیراں پیر
(کیمیائے کرامات)
وصال:
حضرت مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ نے آخری عمر میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے استعفیٰ د ے کر اپنے گوٹھ کھورواہ تشریف لے گئے ، جہاں زیادہ وقت عبادت میں گذرتا تھا اور اپنے پوتے مولوی محمد کو تعلیم دیتے اور تفسیر تنویر الایمان کا کام شروع کیا جو کہ آخری کوشش تھی۔ ۲۹، ذوالعقدہ ۱۳۳۶ھ؍۱۹۱۸ء کو انتقال کیا۔ (السند ، اسلام آباد )
آپ کا مزار شریف ، عارف کامل حضرت خلیفہ محمود نظامانی قادری قدس سرہ کی درگاہ شریف ( کڑیو گھنور ضلع بدین ) میں روضہ شریف کے زیر سایہ صحن میں مرجع خلائق ہے۔ فقیر راقم راشدی نے حاضری دی ہے اور حاضری کے بعد آپ کا مطالعہ اور آپ پر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی ۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )