پیکر عزم و استقامت، منبع رشد و ہدایت حضرت پیر عبدالرحیم بھرچونڈی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
پیکر عزم و استقامت ، منبع رشد و ہدایت حضرت مولانا پیر عبد الرحیم شہید ابن حضرت مولانا عبد الرحمن ابن حضرت مولانا حافظ محمد عبد اللہ (قدست اسرارہم) ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۰ء میں بھر چونڈی شریف ، ضلع سکھر میں پیدا ہوئ۔ ساتویں دن جدا مجد نے عبد الرحیم نام تجویز کیا ۔ کسی نے پوچھا حضرت ! صاحبزادے کا نام کیا تجویز کیا ہے؟ فرمایا ہم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پورا کیا ہے ،وہ اس طرح کہ اپنا نام عبد اللہ ، صاحبزادے کا نام عبد الرحمن اور پوتے کا نام عبد الرحیم ، تینوں ناموں سے لفظ ‘‘ عبد‘‘ ہٹانے سے بسم اللہ شریف پوری ہو جاتی ہے ۔
جدامجد حضرت شیخ ثانی کو آپ سے بہت محبت تھی۔ اکثر آپ دادا جان کے سینے پر کھیلتے رہتے تھے۔ آ پ ابتداء ہی سے غیر معمولی ذہین تھے، جو سبق دوسرے طالب علم گنٹوں میں یاد کرتے اسے ااپ منٹوں میں یاد کر لیتے ۔ قرآن مجید کی تعلیم شروع ہوئی ، پندرہ پارے حفظ اور پندرہ ناظر ہ پڑھے ۔ درسی کتابیں پہلے حضرت مولانا عبد الکریم ( ساکن میانوالی ) سے ، پھر سراج الفقہاء مولانا سراج احمد قدس سرہ (خانپوری )سے پڑھیں اور آخرمیں حضرت علامہ سید مغفور القادری رحمہ اللہ تعالیٰ ( شاہ آباد شریف ، ضلع رحیم یار خاں ) سے پڑھنا شروع کیا ، شرح جامی ، شرح و قایہ اور مشکوٰۃ شریف تک کتابیں کود سمجھ کر پڑھیں حتٰی کہ دوسری کتابوں کے سمجھنے کا خاصا ملکہ پیدا ہوگیا ۔
حضرت پیر صاحب نہایت بلند ہمت اور بے ہاک شخصیت کے مالک تھے، اسلام اور مسلمانون کے تحفظ اور سر بلندی کے لئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کرتے تھیکئی ایسے واقعات پیش آئے کہ ہندووں نے نو مسلم عورتوں کو قید کر کے ارتداد پر مجبور کیا پیر صاحب کسی خطرے کو دل میں نہ لاتے ہوئے میدان آگئے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک ان نو مسلم خواتین کو آزاد نہ کرادیا۔
اپنے والد ماجد مجاہد اعظم حضرت مولانا عبد الرحمن قدس سر لے زیر سایہ رہ کر انجمن احیاالاسلام اور تنظیم المشائخ کی بے مثال خدمات انجام دیں اور اس دور میں جب کہ کانگر س پوری طرح صوبۂ سندھ پر چھائی ہوئی تھی ۔ آپ نے تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ کی بھر پور اشاعت و حمایت کی یہ انہی مشائخ کی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ صوبۂ سندھ کی رائے عامہ مسلم لیگ کے حق میں ہموار ہو گئی اور عوام الناس نے بڑے جوش و خروش سے نظریۂ پاکستان کو اپنایا ۔
۱۹۴۶ء میں والد ماجد کی قیادت میں ڈیڑھ سو افراد کی جماعت کے ساتھ آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں شریک ہوئے اور قیام پاکستان کی پر زور تائید کی۔ اہل سنت کی اس نمائندہ کانفرنس میں متحدہ پاک و ہند کے تقریباً پانچ ہزار علماء و مشائخ کا قیام پاکستان کی خاطر اپنی تمام کوششوں کو صرف کر دینے کا عہد ایک ضرب کلیمی تھی جس نے کانگر س کے سامریوں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا تھا ۔ احیاء الاسلام اور تنظیم المشائخ کے بعد آپ جمیعۃ علماء پاکستان ، سندھ کے نائب صدر منتخب ہوئے اور جس جرأت و ہمت اور خلوص وایثار سے جمیعت کی سر گرمیوں میں حصہ لیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
۱۹۶۰ء میں شیخ ثالث حضرت مولانا عبد الرحمن قدس سرہ کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے تو آپ کی مصروفیات ہیں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا لیکن جس حسن و خوبی سے ااپ نے زمہ داریوں کو نبھایا ، موجودہ دور میں اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے ۔ آپ کے دل میں دین و ملت کا بے پناہ درد تھا ۔ اگر چہ آپ پر قاتلانہ حملے کئے گئے ،طرح طرح سے آپ کو اذیتیں پہنچائی گئیں لیکن اس مرد خدا کے قدم پیچھے ہٹنے کے بجائے ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہے۔
۱۹۶۵ء کی جنگ میں راجھستان سیکڑ میں عملی طور پر حصہ لیا، اپنے مریدین حر مجاہدین کے کئی دستے مسلح کر کے محاذ پر بھیجے اور دوع فعہ خود محاذ پر تشریف لے گئے۔
حضرت پیر صاحب نظریۂ زبردست حامی تھے۔ ۱۹۷۱ء کے انتخابات میں جمیعۃ علماء پاکستان کے صوبۂ سند کے نائب صدر ہونے کی حیثیت سے علی الاعلان اسلامی قوتوں کا ساتھ دیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ عوام کے اذہان میں صحیح اسلامی اقدار کو اس قدر راسخ کردیا جائے کہ وہ نظریۂ اسلام کے علاسہ کسی نظرئے اور ازم کو قبول نہ کریں۔
اسلام دشمن عناصر حضرت پیر صاھب کی با اثر شخصیت کو اپنے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ یقین کرتے تھے۔ ۰ ۱۹۷ء میں جب سندھ میں فتنۂ دہریت عروج پر تھا ، پیر صاحب اس فتنہ کے خلاف سینہ سپر ہو گئے اور لاہور میں یوم محمد بن قاسم کے اجلاس کی صدارت کی[1]
۳۰ رجب المرجب ، ۲۱ ستمبر ( ۱۳۹۱ھ/۱۹۷۱ء) کی شام کو جب کہ حضرت پیر صاحب چار غیر مسلح آدمیوں کے ساتھ کھڑے تھے ، مخالفین نے فائرنگ کر کے آپ کو شہید کردیا آپ کے جنازہ میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی ،آ پ کی آخری آرانم گاہ بھر چونڈی شریف میں ہے ۔ آپ کی شہادت سے ملت اسلامہ ایک عظیم مجاہد سے محروم ہوگئی[2]
نوٹ :۔ ہفت روزہ زندگی کے حوالے کے علاوہ باقی تمام حالات ’’ عبد الرحمن‘‘ سے لئے گئے ہیں ۔
[1] سجاد میر: ہفت روزہ زندگی ( ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۱ئ) ص ۱۹
[2] مغفورالقادری ، سید مولانا : عبد الرحمن ، ص ۲۰۳۔ ۲۰۸۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)