مناظرِ اسلام حضرت مولانا پیر غلام مجدد سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا پیر غلام مجددین پیر ضیاء معصوم جان سر ہندی مجددی فاروقی ۱۳۲۰ھ کو شکار پور ( سندھ ) میں تولد ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد نے ریلوے اسٹیشن شکار پور کے قریب ۱۹۱۷ء کو مدرسہ انوارالعلوم مجدد یہ قائم کیا تھا۔ پیر غلام مجدد سر ہندی بعد فراغت اس مدرسہ کے مدرس و مہتمم مقرر ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
شکار پور میں ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔ انہی کی سر پرستی میں حضرت علامہ محمد ہاشم انصاری نوابشاہی اور مولانا خلیفہ یار محمد قریشی کے پاس شکار پور میں درسی نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ ( شکار پور ماضی و حال )
علامہ مخدوم امیر احمد عباسی اپنے استاد محترم علامہ الحاج محمد ہاشم انصاری کے حالات میں رقمطراز ہیں : حضرت پیر ضیاء معصوم سر ہندی نے اپنے بیٹے پیر غلام مجدد سر ہندی کی تعلیم کے لئے علامہ محمد ہاشم کی خدمات حاصل کر کے انہیں اپنے پاس شکار پور مدعو کیا۔ مولانا نے شکار پور میں رہ کر پیر غلام مجدد کو درسی کتابیں پڑھائیں ۔ (مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء ص ۲۰۳)
طالب علمی کا ایک واقعہ یہاں درج کرتے ہیں کہ فقیر راشدی سے مفتی عبدالرحیم صاحب سکندری نے ا ن سے ان کے استاد محترم حضرت مولانا محمد صالح مہر نے روایت کیا کہ پیر غلام مجدد جب اپنے استاد محترم علامہ محمد ہاشم کے پاس زیر تعلیم تھے تو ایک بار مدرسہ سے کسی طالب علم کی چوری ہو گئی ۔ سب طلباء کی جامہ تلاشی لی گئی جس میں پیر صاحب بھی شامل تھے ۔ یہ بات پیر صاحب کو نا گوار گذری ۔ جس کے سبب وہ گھر چلے گئے ۔ اس رات علامہ محمد ہاشم انصاری ، امیر المومنین ، خلیفۃ المسلمین سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ نے مولانا صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا : محمد ہاشم !غلام مجدد ہماری اولاد ہے ، وہ چوری نہیں کر سکتے ‘‘۔
صبح ہوتے ہی درویش صفت مولانا محمد ہاشم نے پیر غلام مجدد کے گھر جاکر انہیں منا کر مدرسہ واپس لے آئے ۔ پیر غلام مجدد نے استاد محترم کو دروازے پر دیکھ کر دل کا دکھ مٹا دیا اور نہایت عقیدت و احترام سے پیش آئے ۔
بیعت :
اپنے والد ماجد حضرت پیر ضیاء معصوم سر ہندی ؒ ( مدفون شکار پور ) سے سلسلہ نقشبندیہ مجدد یہ میں بیعت ہوئے۔
خطابت:
آپ سندھ کے پر جوش دلولہ انگیز واعظ تھے۔ تقریبا سندھ بھر کے شہر و دیہات میں خطابت کیلئے مدعو ہوتے تھے۔ اپنے پر جوش خطاب اور دوہابیہ کے حوالے سے سندھ بھر میں مشہور و مقبول تھے اور آج بھی سندھ میں ان کے وعظ و دلیری کے قصے زدعام ہیں ۔ ان کے انتقال کو تیس سال سے زائد عرصہ بیت گیا ہے لیکن سندھ میں انکی یادیں تازہ ہیں بلکہ گوٹھ گوٹھ میں بکھڑی پڑی ہیں ۔ انہوں نے ردوہابیت کے کئی معر کے فتح کئے ۔ وہابیت دیوبندیت غیر مقلدیت کے عقائد باطلہ ومسائل جاہلانہ سے عوام الناس کو زندگی بھر جگاتے رہے ۔
میمن عبدالمجید مرحوم لکھتے ہیں : ۱۹۳۹ء کو مسجد منزل گاہ سکھر کے تحفظ کے سلسلہ میں جو تحریک چلی تھی ۔ اس میں ایک انقلابی تقریر کی وجہ سے آپ کوشہر بدر کیا گیا۔ اس دوران کچھ عرصہ ریگستان میں گذارا۔ ۱۹۴۰ء کو حج پر گئے اس کے بعد ماتلی ( ضلع بدین ) میں مستقل سکونت اختیار کی (شکار پور ماضی و حال سندھی مطبوعہ ۱۹۸۰ئ)
درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پگارہ ہر سال ۲۷ رجبی شریف کے عظیم الشان روحانی و جدانی و کیف آور اجتماع میں آپ کی حاضری ہوتی اور ولولہ انگیز ایمان افروز و باطل سوز خطاب سے عوام الناس محظوظ ہوتے ۔ اس کے علاوہ درگاہ رپ شریف ( بدین ) کے سالانہ عرس شریف کے موقع پر بھی آپ کا حقائق آگاہ و ایمان افروز خطاب ہوتا تھا ۔
تھر کے علاقہ ڈیپلو کے نامور گستاخ رسول مولوی عبدالرحیم پچھمی ( غیر مقلدوہابی) تھے جو کہ مشہور افسانہ نویس عثمان ڈیپلائی وہابی کا استاد تھا۔ ان سے مناظر اہل سنت ، خطیب اسلام ، مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی کا مناظر ہ گوٹھ ڈونجھ ( تھر ) میں ہوا۔ جس میں پیر صاحب کو فتح و نصرت حاصل ہوئی اور مولوی پچھمی ذلت امیز شکست سے دو چار ہوا۔ بعد میں مناظر ہ کی روئیداد ’’مناظر ہ ڈونجھ ‘‘کے نام سے شائع ہوئی ۔
مناظر ہ کی روئیداد ملاحظہ فرمائیں :
۱۶؍۱۷، ذوالجحہ ۱۳۶۲ھ بمطابق ۱۹۴۳ء یعنی قیام پاکستان سے چار سال قبل گوٹھ ڈونجھ تحصیل دیپلو ضلع تھر پارکر ( مٹھی ، سندھ) میں اہل سنت و جماعت اور غیر مقلد اہل حدیث وہابیہ کے درمیان مناظرہ ہوا درج ذیل موضوعات مقرر ہوئے (۱) حیات النبی ﷺ (۲) انبیاء و اولیا ء کا وسیلہ و مدد لینا (۳ ) سماع موتی وغیرہ
اہل سنت و جماعت
مناظر:
حضرت علامہ پیر غلام مجدد سر ہندی
۱۔ جناب مولانا محمد شفیع پشاوری
۲۔ مولانا احمد یار ملا کا تیاری
۳۔ مولانا حاجی عبدالغفور ساکن کنری ضلع عمر کوٹ
۴۔ مولانا علامہ محمد امین شاہو ساند
۵۔ مولانا الحاج محمود روھیج
۶۔ مولانا محمد عالم ساکن مٹھڑیہ
۷۔ مولانا محمد سلیم ساکن تگوسر
۸۔ مولانا عبدالاحد ساکن پھٹاریہ
۹۔ مولانا محمد داوٗد ساکن صالح جوتر
۱۰۔ مولانا عبدالمجید سمہ کو نبھاریہ
۱۱۔ مولانا عبدالرشید بن مولانا حاجی تاج محمد ساند گوٹھ پھٹاریہ تحصیل نگر پارکر ضلع تھر پارکر
۱۲۔ مولانا دین ساکن بہ
۱۳۔ مولانا قاری عبدالحق بریلوی
۱۴۔ مولانا محمد صابر سگھر ور
۱۵۔ مولانا محمد امین چانڈ یو ساکن ٹالھی ضلع عمر کوٹ
۱۶۔ حافظ عبدالرحمن درس ساکن جاریلہ
۱۷۔ جناب خلیفہ حضرت حاجی عبداللہ ساکن ڈینبہ
اہل حدیث غیر مقلد وہابیہ :
کی جانب سے درج ذیل تین علماء نے شرکت کی اور ایک دوسرے پر عدم اطمینان کی صورت میں تینوں نے مناظرہ میں حصہ لیا۔
۱۔ مولوی عبدالرحیم پچھمی ساکن ڈیپلو ضلع تھر پار کر
۲۔ مولوی محمد عمر ڈیپلو
۳۔ عبدالعزیز نجدی
امن قائم کرنے کیلئے ڈپٹی کلیکٹر ، ڈپٹی سپر نٹنڈنٹ پولیس اور سب انسپکٹرپولیس فورس کے ساتھ منزل انداز تھے۔
پہلے روزرئیس الواعظین فخر المناظرین حضرت پیر غلام مجدد سر ہندی سے مناظرہ کرنے کیلئے مولوی عمر سامنے آیا۔ حضرت نے حیات النبی ﷺ کے موضوع پر قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے دلائل کے انبار لگا دئیے مد مقابل مناظر کی کیفیت یہ یہ تھی کہ ہونٹ خشک، گلہ خشک آواز ساتھ نہیں دے رہی تھی دل ڈوبا جارہا تھا دلیل تو کوئی یاد نہیں تھا گستاخیوں اور بے ادبیوں سے اپنا نامہ اعمال کو سیاہ کار کرکے وقت پورا کیا۔
وسیلہ استمداد کے موضوع پر پیر صاحب سے بات کرنے کیلیٔے وہابیہ کے مشہور واعظ و مناظر عبدالرحیم میدان میں آئے لیکن اس کا بھی حال پہلے مناظر سے مختلف نہ تھا وہ خود بول رہے تھے اور خود ہی سمجھ رہے تھے پیر صاحب کی کسی دلیل کا جواب نہیں دیا بلکہ اپنی ہانکتے رہے جس پر مجمع قہقہہ مار رہا تھا خود وہابی حیران و پریشان تھے کہ ان کا مناظر گھر کا شیر لیکن میدان میں گیدڑ سے بھی بد تر ہے۔
دوسرے روز سماع موتی کے موضوع پر دونوں مناظرین کے پاس دلائل ہی نہیں تھے پورا علم و زور انہوں نے صرف کرکے رسوائی خریدلی تھی اب انہوں نے تیسرے شخص کو مناظرے میں اتارا۔ شیخ عبدالعزیز نجدی کو ہندوستان سے برآمد کیا تھا اس بیچارے کو سندھی صحیح تلفظ کے ساتھ بولنے کی قوت نہیں تھی اس میں مذکر و مؤنث کی تمیز بھی نہیں تھی وہ بھی پیر صاحب کی فصیح و بلیغ تقریر قرآن و حدیث کے دلائل کے سامنے ٹک نہں سکے شائیں بائیں کرتے رہے ۔ بالآخر انہوں نے دوسرے روز بھی پیر صاحب کی ایک دلیل کا بھی صحیح و درست جواب نہیں دیا بلکہ بچکانہ حرکتیں ، احمقانہ باتیں اور مطلق جاہلانہ انداز میں گفتگو کرتے رہے۔ نہ دلیل سے باتیں سمجھا سکے اور نہ دلائل کے سامنے ہٹ دھرمی ضد و انا سے برأت کا اعلان کیا بلکہ ہانکتے ہانکتے وقت پاس کرکے بھاگ کر چلے گئے۔
عوام الناس، اہل سنت و جماعت کے مناظر سے قرآن و حدیث و سلف الصالحین کے حوالہ جات، مستند روایات سن کر حقیقت کو پہچان گئے۔
آخر میں مولانا محمد شفیع پشاوری اور مولانا احمد یار ملا کا تیاری نے مؤثر تقریریں کیں۔ جلسہ صلوٰۃ و سلام پر اختتام پر پہنچا۔ اہل سنت و جماعت کے فتح و کامرانی پر چہرے کھلے اٹھے۔
روئیداد اس مناظرہ کو حضرت عبدالمجید نقشبندی (صدر مدرس دارالعلوم صوفیہ حنفیہ گوٹھ واگھی جو دیرو تحصیل نگر پارکر ضلع تھر پارکر) نے ایمانداری سے نقل کیا ہے اس ک نام اعلاء الحق المعروف مناظرہ ڈونجھ (سندھی) رکھا اور اس کو مولانا عبدالرشید خلف مولانا حاجی تاج محمد ساند گوٹھ پھٹاریہ تحصیل نگر پارکر نے شائع کیا۔ ضخامت بڑی سائز کی ۸۶ صفحات پر مشتمل ہے۔
(مناظرہ ڈونجھ مطبوعہ ۱۳۶۲ھ تھر پارکر)
(یہ نسخہ نایاب ۶۱ سال کا پرانہ مدرسہ صبغۃ الہدیٰ شاہ پور چارکر میں محفوظ ہے اور نقل احقر کے پاس دستیاب ہے یہ نقل مولانا نور نبی صاحب نے فراہم کی)
سندھ میں یہ روایت مشہور ہے کہ آپ حج پر گئے تو وہاں وہابی علماء نے ’’نور بشر‘‘ کے موضوع پر آپ سے مناظرہ کیا۔ آپ نے اپنے دلائل میں شارح بخاری امام احمد قسطلانی کی مشہور و معروف کتاب ’’مواہب اللدنیہ‘‘ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث نور پیش کرکے وہابی علماء کو ساکت کرکے مناظرہ آپ نے جیت لیا۔ یہ واقعہ غالبا ۱۹۴۰ء کا ہے۔
اولاد:
آپ نے دو شادیاں کیںجن سے پانچ بیٹے تولد ہوئے:
۱۔ مولانا پیر نثار احمد سرہندی مرحوم
۲۔ مولانا مختار احمد سر ہندی (کراچی)
۳۔ عبدالباقی سرہندی (جیلر سنٹرل جیل حیدرآباد)
۴۔ نور احدم سرہندی ماتلی
۵۔ منظور احمد سرہندی ماتلی
آپ کے بڑے صاحبزاسدے مولانا پیر نثار احمد سرہندی ۱۹۲۸ء کو شکار پور میں تولد ہوئے مکمل تعلیم اپنے والد محترم اور حضرت مولانا عبداللہ (ماتلی) کے پاس حاصل کرکے ۱۹۵۸ء کو فارغ التحصیل ہوئے اور رشد و ہدایت کے ساتھ مدرسہ انوار العلوم شکار پور میں درس و تدریس کا سلسلہ تاحیات جاری رکھا۔ ۱۹۷۴ء میں انتقال کیا۔
وصال:
واعظ اسلام مولانا پیر غلام مجدد سرہندی نے ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء میں انتال کیا۔ آکری آرامگاہ ماتلی (ضلع بدین) میں واقع ہے۔ آپ کے بیٹوں سے بار بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے عرصہ تین سال میں بھی تفصیلی حالات مہیا نہیں کئے۔