جماعت علی شاہ
محدث علی پوری، امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد
نام: سیّدجماعت
علی شاہ۔
لقب: امیرِ ملّت، ابوالعرب، سَنوسیِ ہند۔
نسب:
آپ نجیب الطرفین سیّد ہیں، ساداتِ شیراز سے آپ کاتعلق ہے۔ آپ کاسلسلۂ نسب
38واسطوں سے امیرالمومنین حضرت مولا علی کرم اللہ
تعالٰی وجہہ الکریم تک پہنچتاہے۔
سلسلۂ
نسب:
آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت
علی شاہ محدث علی پوری بن سیّد کریم علی شاہ بن سیّد منوّرعلی شاہ بن سیّد محمد
حنیف بن سیّد محمد عابد بن سیّد امان اللہ بن سیّد عبدالرحیم بن سیّد میر محمد بن
سیّد علی اِلٰی
آخِرِہٖ۔(رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہم اجمعین)
سالِ
ولادت: 1257ھ مطابق
1841ء
مقامِ
ولادت: علی پورسیّداں، ضلع سیالکوٹ(پنجاب،پاکستان)۔
تحصیلِ
علم:
آپ نےعلی پورسیداں میں حافظ قاری شہاب
الدین کشمیری سے قرآنِ پاک حفظ کیا۔ عربی
اور فارسی کی ابتدائی کتب میاں عبدالرشید علی پوری سے پڑھ کر مولانا عبدالوہاب امر
تسری سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ بعد ازاں لاہور جاکر مولانا
غلام قادربھیروی اور مولانا مفتی محمد عبداللہ
ٹونکی (پرو فیسر اورنٹیل کالج لاہور)سے
مولوی عالم اور مولوی فاضل کے درسیات پڑھے۔ اس کے بعد سہارن پور جا کر
مولانا محمد مظہر سہار نپوری اور مولانا فیض الحسن سہارن پوری سے استفادہ کیا۔ مگر تشنگیِ علم
ہنوز باقی تھی۔ چنانچہ یہ تشنگی کشاں کشاں آپ کو مولانا
سیّد محمد علی مونگیری (ناظم دارالعلوم ندوہ)، مولانا
احمد حسن کانپوری، مولانا میر محمد عبداللہ، مولانا
ارشاد حسین رامپوری، مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی، مولانا شاہ عبدالحق الٰہ آبادی مہاجر مکی، مولانا
قاری عبدالرحمٰن محدث پانی پتی اور حضرت علامہ
محمدعمر ضیاء الدین استنبولی کی خدمت میں لے گئی اور تمام علومِ متداولۂعقلیہ
و نقلیہ پر دسترس اور مہارتِ تامّہ حاصل کر کے اسناد حاصل کیں۔ حضرت شاہ فضلِ
رحمٰن گنج مراد آبادینے تو اپنی کُلاہِ
مبارک اُتارکر آپ کے سرِ اقدس پر رکھ دی
اور اپنا پس خوردہ پانی پلا کر بہت سے اوراد و وظائف اور سندِ حدیث کی اجازت عنایت
فر ماکر رُخصت کیا۔
بیعت
وخلافت:
سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ فقیر محمدنقشبندی چوراہی (چورہ شریف)کے مرید
ہوئے اور قلیل مدّت کے بعد خلافت و اجازت سےمشرف ہوئے۔
حلیہ
شریف اور آپ کی سب سے بڑی کرامت:
آپ
کا قد مبارک موزوں، قدرے بلند، جوانی میں اَعضاء مضبوط، سڈول ومتناسب تھے، مگر ضعیفی
میں لاغرونحیف ہوگئےتھے۔ رنگ گندم گوں مائل بَہ سفیدی مگر چہرۂ مبارک عالمِ شباب
میں سرخ انار کی طرح چمکتا تھا۔ سر بڑا، پیشانی کشادہ وبلند اور اس پر ہلکا سا
سجدوں کا نشان۔ آنکھیں بڑی اور روشن۔ پُتلی سُرخی مائل، کبھی کبھی ایک آنکھ دباکر
دیکھتے تھے۔ بینی مبارک بلند وباریک، لب سُرخ، پتلے۔ دہنِ مبارک
متوسط و خوب صورت۔ دندانِ مبارک سفید موزوں گویا موتیوں کی لڑی، مسکراتے وقت نہایت
بھلے معلوم ہوتے تھے۔ مسکراہٹ آپ کی ہنسی تھی۔ کھلکھلا کر
کبھی نہیں ہنستے تھے۔ نوّے سال کی عمر تک تمام دانت موجود تھے اور مضبوط ایسے خود
گنے چھیل کر کھاتے۔ ریش مبارک گھنی اور اس پر حنائی رنگ۔ داڑھی اور سر پر ہمیشہ
مہندی لگاتے۔ سرکے بال ہمیشہ مقصر رکھتے۔ شانے کشادہ، ہاتھ لمبے، انگلیاں پتلی ودراز،
سینہ فیض گنجینہ کشادہ، کمر پتلی، پاؤں مضبوط مگر آخری عمر میں چلنے پھرنے سے
معذور ہوگئے تھے۔ آواز بلند، تقریر دل پذیر جس کا ایک ایک لفظ سمجھا جاسکتا تھا۔
تقریر میں امثال و مشاہدات زیادہ بیان فرماتے۔ آں جناب کے چہرۂ اقدس سے ایسا رعب ودبدبہ
نمایاں تھا کہ حاضرین ہمیشہ اس وجہ سے با ادب و خائف رہتے تھے۔ آپ کی آمد پر بڑے
بڑے آدمی تعظیم کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔گوشۂ کرامت کو یہ کہہ کر
واضح کرتا ہوں کہ آپ کی سب سے بڑی کرامت سنّتِ نبویﷺ کی اتباع اور دینِ اسلام
پر قربان ہونے کا وہ لازوال جذبہ تھا، جس نے عمر بھر آپ کو مجاہدانہ کردار پر کمر
بستہ رکھا۔
سیرت
وخصائص:
امیرِ ملّت
حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعتِ
خداوندی اور غلامیِ مصطفیٰﷺ میں بسر
ہوا ۔ آپ بعداز نمازِ فجر تا اشراق اور بعدازعصر تا مغرب دنیاوی بات بالکل نہیں
کرتے تھے اور بعدنمازِ عصر ختم شریف حضرت خواجہ محمد
معصوم ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ تہجد کی نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ تمام یارانِ
طریقت کو بھی تہجد پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ طالب ِعلموں کے ساتھ بہت محبت سے
پیش آتے تھے۔ جب کوئی بزرگ آپ کے پاس آتا تو اسے اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ جب آپ کسی
بزرگ کے پاس جاتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے تھے۔ حق گوئی وبےباکی آپ کا طرۂامتیاز
تھا۔
تبلیغی
خدمات:
آپ نے تبلیغِ اسلام
کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ، اسلام کا پیغام متحدہ ہندوستان ( پاک
وہند) کے کونے کونے تک پہنچا یا ۔ عیسائی مشنریوں اور آریہ سماج کی ریشہ دوانیوں
کو ناکام بنایا، ہزار ہا عیسائیوں اور ہندوؤں کو مشرف بَہ اسلام کیا، شدھی تحریک
(مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک )کے خلاف بھر پور جدو جہد کی اور آگرہ میں
تبلیغی مرکز قائم کرکے طوفانی دورے کیے۔ مرزا قادیانی کےعقائدِباطلہ کی زبر دست تر
دید کی، شاہی مسجد ، لاہور میں مرزا کی موت کی پیش گوئی کی، جو حرف بَہ حرف صحیح
ثابت ہوئی ۔آپ کی سیاسی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں ۔ تحریکِ ترکِ موالات اور
تحریکِ ہجرت(1920-21) کے نقصانات سے مسلمانوں کو پوری طرح باخبر
کیا ۔ 1935ء میں مسجد شہید گنج کی تحریک کے وقت شاہی مسجد لاہور میں ولولہ انگیز تقریریں کی جس کی بنا پر آپ کو’’
امیرِ
ملّت‘‘ کا خطاب دیا گیا آپ کے لاکھوں مریدین
پاک و ہند اور دیگر ممالک میں پھیلے ہوئیں ہیں۔
تحریکِ
پاکستان میں آپ کی خدمات:
آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھر پور حصّہ لیا
اور تمام مریدین کو مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی پُرزور تلقین کی ۔ 1939ء میں جب کا
نگر یس وزارت سےمستعفی ہوئی تو قائدِ اعظم نے جمعۃ المبارک 22؍
دسمبر1939ء (ذوالقعدہ1358ھ) کو’’یومِ نجات‘‘ (Day
of Deliverance) منانے کی اپیل کی۔
اس موقع پر آپ نے نمازِ جمعہ کے بعد علی پور سیداں میں دورانِ
تقریر فرمایا:
’’دو جھنڈے ہیں: ایک
اسلام کا ، دوسرا کفر کا۔ مسلمانو! تم کس
جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو گے ؟‘‘
حاضرین نےبَہ آوازِ بلند جواب دیا کہ
اسلام کے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے
جھنڈے تلے کھڑا ہو تو کیا تم اس کے جنازے کی نماز پڑھوگے؟ حاضرین نے انکار
کیا ۔ پھر آپ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم اس کو
مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروگے ؟ حاضرین نے بالا تفاق کہا :نہیں، ہر گز
نہیں ! اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وقت اسلامی
جھنڈا مسلم لیگ کا ہے، ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں
شامل ہونا چاہیے۔(صدافسوس!فی زمانہ مسلم لیگ اسلام اور مسلمانوں کی بنسبت
غیروں کی زیادہ بہی خواہ ہے،اور نام’’مسلم لیگ‘‘ہے لیکن اس میں
عیسائی،مرزائی،سکھ،ہندو سب ہیں۔یہ کیسی مسلم لیگ ہے)۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے
اسلامی آئین کے نفاذ کی پوری پوری کوشش کی، جگہ جگہ جلسوں اور یاد داشتوں کے ذریعے
حکومت کو مقامِ مصطفیٰﷺ کے تحفّظ اور نظامِﷺ کے نفاذ کا وعدہ یاددلایا۔ حضرت پیر صاحب آف مانکی شریف حضرت پیر امین الحسنات اورضیغمِ اسلام مجاہدِ ملّت حضرت مولانا محمد عبدالستار خاں نیازی نے آپ کی ہم نوائی
میں ملک بھر کا دورہ کیا مگر افسوس کہ حکومت نے وعدہ پورا نہ کیا، جس کا آپ کو
تادمِ زیست صدمہ رہا۔
دیگر
خدمات:
دینی مدارس کی امداد اپنا فرضِ منصبی
سمجھتے تھے 1910ء میں سلطان عبد الحمید کی اپیل پر آپ نے حجاز ریلوے فنڈ میں اپنے
متوسلین کی طرف سے چھ لاکھ روپے جمع کرائے ۔ 1911ء میں علیگڑھ کالج کو یونیورسٹی
بنانے کی غرض سے نواب وقار الملک نے امداد کی اپیل کی اور یقین دلایا کہ انگریزی
کے ساتھ دینیات کی تعلیم لازمی ہوگی اور یونیورسٹی کی مساجد میں پنج وقتہ نمازوں
کی حاضری تمام طلبہ پر لازمی ہوگی ، آپ نے کئی لاکھ روپے اپنے حلقۂ ارادات کے
ذریعے جمع کرا دیے۔
علامہ محمد اقبال آپ
کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ایک موقع پر پیر صاحب نے علامہ
اقبال سے سے ازراہِ عنایت فرمایا:
آپ کا یہ شعر ہمیں بھی یادہے:
کوئی اندازہ کر سکتا ہے ان کے زورِ
بازوکا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس پر علامہ
اقبال نے کہا :
’’میر ی نجات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ
کو میرا یہ شعر یاد ہے۔‘‘
آپ نے بے شمار حج کیے ، کم و بیش پچاس
مرتبہ دربارِ رسالت میں حاضری دی ، سیکڑوں مسجدیں تعمیر کرائیں ، متعدد مدرسے جاری
کیے۔ 1904 ء میں ’’ انجمن خدام الصوفیہ‘‘ کی بنیاد
لاہور میں رکھی ، اس انجمن کے جاری کردہ ماہ ناموں: ’’اَنوار الصوفیہ‘‘ لاہور ( جو ان دنوں قصور سے شائع
ہوتا ہے ) اور ’’لمعات الصوفیہ‘‘ سیالکوٹ پر
آپ کی خاص نظرِ عنایت تھی، اس دور میں یہ رسائل بڑے
وقیع مضامین پر مشتمل ہوتے تھے۔ آل انڈیا سنّی کانفرنس بنارس میں بحیثیت سر پرست
شریک ہوئے۔آپ کی سخاوت اور دریا دلی کا ایک عالم میں چر چا تھا ، کوئی سائل آپ کے
دربار سے خالی نہ جاتا تھا ، خاص طور پر عربو ں کی بہت عزت و تکریم کرتے، چنانچہ اہلِ عرب
آپ کو ’’ابو العرب‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے
۔
وصالِ پُر ملال:
آپ کی وفاتِ حسرت آیات 26؍ ذیقعد1370ھ
مطابق30؍اگست1951ء بروز جمعرات ایک سو دس برس کی عمر میں ہوئی ۔
مَزارِ پُر اَنوار: علی
پورسیداں، پنجاب، پاکستان۔
مآخذومراجع:
تذکرہ
اکابرِ اہلِ سنّت۔
تاریخِ مشائخِ
نقشبند۔
