قاضی عبد الوحید عظیم آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: قاضی صاحب کا سلسلہ ٔنسب اس طرح ہے: قاضی عبد الوحید بن قاضی عبد الحمید بن قاضی محمد اسمٰعیل بن قاضی اکرام الحق بن قاضی ابن الحق بن قاضی کمال الحق بن قاضی غلام یحٰیی بن قاضی غلام شرف الدین۔قاضی صاحب کا تعلق بہار کے ایک مقتدر مذہبی و علمی خانوار دے سے ہے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام محمد ملقب تاج فقیہ جعفری زینبی فاتح منیر تک پہنچتا ہے۔جو ان کے مورث اعلیٰ تھے۔ منظور النبی ان کا تاریخی نام ہے۔
تاریخ ومقامِ ولادت: قاضی عبد الوحید عظیم آباد(پٹنہ، بہار)میں 1289ھ میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: قاضی عبد الوحید عظیم آبادی نے درسی کتابیں شمس العلماء مولانا عبد الحق خیر آبادی کے شاگردِ رشید مولانا سید عبد العزیز چشتی صابری سے پڑھیں۔عربی تعلیم کے بعد وہ انگریزی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور ایف اے(F.A) کیا۔
بیعت وخلافت: قاضی عبد الوحید کو بیعت سلسلہ فردوسیہ میں حضرت شاہ امین رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔اور انہیں مختلف سلسلوں، خاص طور پر سلسلۂ قادریہ میں اجازت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل تھی۔
سیرت وخصائص: قاضی عبد الوحید عظیم آبادی علیہ الرحمۃ نے بہت ہی کم عمری علمی اعتبار سے بہت شہرت پائی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے ذہین وفطین تھے جس کا اندازہ آپ کے دورانہ طالب علمی کے ایک واقعہ سے ہوتا ہے کہ آپ کے والد قاضی عبدالحمید نے سر سید احمد خاں اور قاضی رضا حسین کے مشورے سے آپ کو مزید انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کےلیے انگلستان بھیجنا چاہتے تھے مگر آپ کسی طرح بھی راضی نہ ہوئےبلکہ مزید انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے بھی انکار کردیا کیونکہ آپ مغربی تعلیم کو مذہب کےلیے سمِ قاتل سمجھتے تھے۔ آپ سر سید کی انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ ندوۃ العلماء کی تعلیم تک کے سخت مخالف تھے۔آپ نے ندوۃ العلماء کی سختی سے مخالفت کی، کیونکہ وہ اس ادارے کو مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ہندوستان میں جہاں کہیں ندوہ کا جلسہ ہوتا تو وہاں آپ اس کی مخالفت میں جلسہ کرانا دین کی عین خدمت تصور کرتے تھے۔ آپ حضرت علامہ مولانا الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے بہت محب ومعتقد تھے۔اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے خیالات و معتقدات کی اس زمانے میں دھوم تھی۔ان کی علمی شہرت عظیم آباد تک بھی پہنچ چکی تھی۔ ان دونوں کے تعلقات کی ابتدا کب ہوئی قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ یقینی ہے کہ 1313 ھ یا اس سے کچھ پہلے ان دونوں یں مراسلت شروع ہوچکی تھی،یہ تعلقات آخر عمر تک قائم رہے۔اس وقت قاضی عبد الوحید کی عمر 24 سال کے لگ بھگ ہوگی،انہوں نے دینی تعلیم کے فروغ کےلیے ایک درس گاہ ‘‘مدرسہ حنفیہ’’ کے نام سے قائم کی اور ایک روایت کے مطابق 75 ہزار کی جائداد اس کے اور دوسرے دینی کاموں کےلیے وقف کردی تھی۔مشہور عالم شاہ وصی احمد محدث سورتی پیلی بھیتی اس کے صدر مدرس قرار ہوئے، ہر سال مدرسے کا سالانہ جلسہ ہوا کرتا تھا جس میں فارغ التحصیل طلباء کی دستار بندی ہوا کرتی تھی اور انہیں سند فراغ عطا کی جاتی تھی۔اس موقع پر علمائے کرام تشریف لاتے اور سیرت پاک کے جلسے ہوتے اور عوام و خواص علماء کی مواعظ حسنہ سے مستفیض ہوتے۔
تاریخ ومقامِ وصال: قاضی عبد الوحید کا صرف 37 سال کی عمر میں1326 ھ میں محلہ لودی کڑا، پٹنہ میں انتقال ہوگیا۔اعلیٰ حضرت نے نماز جنازہ پڑھائی۔حضرت مخدوم شہاب الدین پر جگ جوت (المتوفی 666ھ)کی درگاہ جٹھلی میں دفن ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تذکرۂ خلفاءاعلیٰ حضرت(رحمۃ اللہ علیہ)