حضرت مولانا امیر علی امیٹھوی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا شاہ امیر علی ابن علی ابن محمد بخش ابن امام الدین ابن محمد ابن حضرت مُلا جیون ۱۲۱۸ھ میں بمقام امیٹھی پیدا ہوئے،علماء لکھنؤ سے تحصیل علم کیا،۱۲۳۶ھ میں مشہور صوفی عالم حضرت مولانا شید عبد الرحمٰن شکار پوری سندھی ثم لکھنوی (۱۱۶۲ھ/۱۲۴۵ھ) ۔۔۔۔
حضرت مولانا امیر علی امیٹھوی شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا شاہ امیر علی ابن علی ابن محمد بخش ابن امام الدین ابن محمد ابن حضرت مُلا جیون ۱۲۱۸ھ میں بمقام امیٹھی پیدا ہوئے،علماء لکھنؤ سے تحصیل علم کیا،۱۲۳۶ھ میں مشہور صوفی عالم حضرت مولانا شید عبد الرحمٰن شکار پوری سندھی ثم لکھنوی (۱۱۶۲ھ/۱۲۴۵ھ) کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، مثنوی مولانا رومی،شرح مشکوٰۃ اور حضرت صوفی عبد الرحمٰن کا مشہور رسالہ ‘‘ کلمۃ الحق’’ اُن سے پڑھا،۱۲۴۲ھ میں عید الضحیٰ کے دن مرید ہوئے اور خلافت حاصل کی،
مولانا امیر علی قدس سرہٗ کی زندگی میں حادثۂ ہنومان گڑھی اجودھیا کو خاص اہمیت حاصل ہے،ہنومان گڑھی کی مشہور عالمگیری سجد کو شر پسند غیر مسلموں نے شہید کردیا تھا،یہ واقعہ ایسا نہ تھا کہ مسلمانوں کا دل مجروح نہ ہوتا، مولانا امیر علی کو خبر ملی تو بے چین ہوگئے،جہاد کے لیے کمرہمت باندھ لی، جانبازوں کی کثیر جماعت نے شرف جہاد کے حصول کے لیے درانا کے ہاتھ پر بیعت کی،حالات کے پیش نظر نواب واجد علی شاہ نے تصفیہ اور انصاف کا وعدہ کرلیا،وہ فیصلہ کرنا چاہتا تھا،مگر ریذیڈنٹ ہر لمحہ بادشاہ اور وزیر پر معاملہ کود بانے پر اصرار کرتا رہا انتظا ردیکھ کر مولانا مجاہدین کو لے کر اجودھیا کی طرف روانہ ہوئے،شاہی فوج مزاحم ہوئی،اور آگے بڑھنے سے روک کر محاصرہ کرلیا، مقابلہ ہوا،زوروں کا رَن پڑا،راہِ حق میں جہاد کرتے ہوئے ۲۶؍صفر۱۲۷۲ھ بروز بدھ شہید ہوئے،حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر عقیدت مندوں نےمولانا سے محفوظ جگہ میں پہونچا نے کی پیشکش کی تو ان کی زبان حق بیان نے یہ مصرعہ ارشاد فرمایا۔؏ سرمیداں کفن بردوش دارم۔۔۔۔ بعد میں یہی مصرعیہ سال شہادت نکلا،ہنگامۂ جہاد ختم ہونے کے بعد سرمبارک گنّے کےکھیت میں لہو ٹپکتا پایاگیا۔۔۔ (باغی ہندوستان،تاریخ مدینۃ الاولیاء اجودھیا،تذکرل علمائے ہند،نزہۃ الخواطر)