حضرت مولانا مفتی شاہ ارشاد حسین رام پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسم گرامی:حضرت مولانامفتی ارشادحسین۔لقب:نبراس العلماء،سراج الفقہاء،قطب الارشاد وغیرہ۔رامپورکی نسبت سے"رامپوری" کہلاتےہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:مولانا ارشاد حسین بن مولانا حکیم احمد حسین بن غلام محی الدین بن فیض احمدبن شاہ کمال الدین بن شیخ زین العابدین عرف میاں فقیراللہ بن حضرت خواجہ محمد یحیٰ بن امام ربانی مجددالف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی ۔علیہم الرحمۃ والرضوان
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت 14/صفرالمظفر1248ھ،مطابق نومبر/1832ءکومحلہ پیلا تالاب شہرمصطفیٰ آبادعرف رام پور(انڈیا)میں ہوئی۔
قبلِ ولادت بشارت:عارف باللہ حضرت حاجی محمدی علیہ الرحمہ(جن کامزارشریف پاک توپ خانہ روڈ رامپورمیں مرجعِ خلائق ہے) نےحضرت مولاناحافظ عنایت اللہ خان رامپوری سےان کےاصرارِ بیعت پرایک دن فرمایا:"تم ابھی تعلیم حاصل کرو،ایک قطبِ وقت کاظہورہونےوالاہے،ان سےتمہیں نصیبِ کامل ملےگا"۔(حیات مولانا ارشادحسین رام پوری:ص،14)
تحصیلِ علم:مولانا محمد ارشادحسین رامپوری علیہ الرحمہ نےفارسی کی ابتدائی کتب اپنےوالدماجداوربرادرمولاناامدادحسین رامپوری،شیخ احمدعلی اور شیخ واجدعلی سےپڑھیں۔اس کےبعد دیگرفنون کی تعلیم مولانا حافظ غلام نبی،مولانا جلال الدین،اورمولانا نصیرالدین خان سےحاصل کی۔اس کےبعد علومِ نقلیہ کی تکمیل کی۔معقولات کادرس علامۂ زماں مولانامحمدنواب خان افغانی نقشبندی سےلیا۔آپ نےعارف باللہ مولانا عبدالکریم عرف ملافقیراخوندقادری چشتی کی خانقاہ کےحجرےمیں دوران ِقیام نوماہ میں قرآنِ کریم حفظ کیا۔
بیعت وخلافت:حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی سےمرید ہوئے،اور محبوبیت و مرادیت کا مقامِ بلند پایا،اجازت و خلافت سے سر فراز کیے گئے۔
سیرت وخصائص: حافظِ آیاتِ قرآنی،واقفِ اسرارِ ربانی،مفسرِ کلامِ ربِ العلمین،محدثِ حدیثِ سیدالمرسلین،مدرسِ فقہ واصول،جامع المنقولِ والمعقول ،مجمع البحرین،تاج المحدثین،سراج الفقہاءوالمتکلمین، جامع شریعت وطریقت،نبراس العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ ارشاد حسین رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کاشماراکابرین علماء اہلسنت میں ہوتاہے۔آپ خاندانی شرافت ونجابت کےساتھ علم وتقویٰ میں بھی بےمثال تھے۔رامپورہمیشہ سےعلم وفن کاگہوارہ رہاہے۔خاص طورپرعلماء ومشایخ،ادباءوشعراء،صوفیاءوحکماءکو اس شہرمیں امتیازحاصل رہاہے۔انہیں نابغہ ٔ روزگاراورباکمال ہستیوں میں جوعلمی بالادستی اورعظمت حضرت مولانا ارشادحسین کےحصےمیں آئی ہے،وہ آپ کاہی خاصہ ہے۔آپ کاشمارہندوستان کےان برگزیدہ علماء میں ہوتاہےجنہوں نےمشکل وقت میں چمن زاراہل سنت کی آبیاری اپنےقلم،علم وفضل، تقویٰ وطہارت،اورقول وفعل کی یکسانیت سےکی ہے۔انہوں نےمسلکِ حق کی ترویج واشاعت میں امام احمدبن حنبل،امام اعظم ابوحنیفہ،اورحسینی کردارکواپنےسامنےرکھا۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت سےلےکرآج تک علماء اہلسنت انہیں اپنامقتداءوپیشوامانتےہیں۔
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ الرحمہ آپ کےعلم وفضل اورزہدوتقویٰ کےبڑےمداح تھے۔انہوں نےاپنی تحریروں میں اکثرمقامات پربڑےادب واحترام کےساتھ آپ کاتذکرہ کیاہے۔چنانچہ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ِ لطیف "کفل الفقیہ الفاہم" میں آپ کاذکران القاب وآداب سےکیاہے۔"اقضیٰ علیہ ناس من کبارالعلماءالہندکاالفاضل الکامل محمدارشادحسین الرامفوری رحمہ اللہ تعالی وغیرہ"۔(تذکرہ علماء اہلسنت ص25/فتاویٰ رضویہ ج7ص161)
صدرالافاضل بدرالمماثل حضرت مولانامفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے"سنی کی تعریف"ان الفاظ میں کی ہے:"سنی وہ ہےجومااناعلیہ واصحابی کامصداق ہو۔یہ وہ لوگ ہیں جوخلفائےراشدین،آئمہ دین،مُسلَّم مشایخِ طریقت،اورمتأ خرین علماءکرام میں سےحضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملک العلماء،حضرت بحرالعلوم فرنگی محلی،حضرت مولانافضل حق خیرآبادی،حضرت مولاناشاہ فضل رسول بدایونی،حضرت مولانامفتی ارشادحسین رامپوری اورحضرت مولانامفتی شاہ احمدرضاخاں بریلوی کےمسلک پرہوں۔رحمہم اللہ تعالیٰ۔"(الفقیہ امرتسر21/اگست 1945ء،ص9)
تاج الفقہاء حضرت مولانامفتی شاہ ارشادحسین رام پوری رحمۃ اللہ علیہ خوش لباسی،خوش اخلاقی،اورخوش اوقاتی سےزندگی بسرکرتےتھے۔ہرشخص سےاچھابرتاؤکرتے،عہدکوپوراکرتے،محتاجوں کی دستگیری فرماتے،امیروں سےبےنیازرہتےتھے۔ ہم عقیدہ مسلمانوں پرشفقت وعنایت فرماتےاورباطل پرستوں بدمذہبوں سےشدیدنفرت کرتےتھے۔آپ کا ریاستِ رام پورمیں خاص اثرتھا۔(تذکرہ علماء اہلسنت ص25)
آپ علیہ الرحمہ کاحلقۂ درس بہت وسیع تھا۔ دوردرازعلاقوں سےسفرکرکےلوگ آپ کےپاس آکر علمی پیاس بجھاتےتھے۔تمام علوم وفنون پریکساں مہارت حاصل تھی۔تقریباً تیس برس تدریس فرمائی اسی حالت میں واصل باللہ ہوئے۔اسی طرح افتاء میں آپ کاایک نام تھا۔ درس وتدریس اورافتاء وغیرہ سےوقت نکال کروقت کےتقاضوں کےمطابق تالیف میں مشغول رہتےتھے۔ہرجمعہ کوبعدنمازجمعہ اپنی مسجدمیں قرآن کریم کی تفسیربقدر ایک رکوع اسرارونکات کےساتھ بیان فرماتےتھے۔یہ مجلسِ خیر عصرکےقریب تک قائم رہتی ۔سامعین کی یہ حالت ہوتی کہ گریہ وبکاء،اورسکتہ کی کیفیت طاری رہتی۔بعض حضرات بےخود ہوکراپناسردرودیوارپرمارتےتھے۔تیس سال میں دومرتبہ آپ نےقرآن مجیدکی اول تاآخرمکمل تفسیر بیان فرمائی۔(حیات مولانا ارشادحسین رامپوری ص 22)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال پیرکادن گزارکربوقتِ صبحِ کاذب،15/جمادی الاخریٰ 1311ھ،مطابق25/دسمبر1893ءکوہوا۔آپ کامزار پرانوار،رام پور (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔حیات مولانا ارشادحسین رام پوری۔