حضرت مولانا شاہ محمد علی حسین مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا محمد علی حسین صاحب ابن حضرت مولانا شاہ اعظم حسین خیر آبادی قدس سرہما ۲۱؍ربیع الثانی ۱۳۱۲ھ میں بھوپال میں پیدا ہوئے، اُردو فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا یُداللہ سنبھلی سےحاصل کی اور قرآن مجید حفظ کیا،معقول و منقول کی تکمیل والد ماجد سے کی، ۱۹۰۳ء میں والد ماجد کےساتھ مدینہ طیّبہ چلےگئے، اور وہیں سے بلاد عرب عراق وشام ومصر کا سفر کیا، اور عتبات عالیہ کی زیارت کی، ۱۳۳۶ھ میں آپنےدمشق میں امام الدھر حافظ العصر شیخ بد الردین دمشقی سےاُن کے صاحبزادے مولانا تاج الدین کی معیت میں شرحوقایہ کا درس لیا، حضرت مولانا محمد عبد الباقی فرنگی محلی مدنی المتوفی ۱۳۶۴ھ کےدرس میں مختصر المعانی، تلخیص المفتاح پڑھی، صحیح مسلم اور بعض دوسری کتب حدیث کا حضرت مولانا شاہ محمد معصوم ابن شاہ عبد الرشید ابن حضرت شاہ احمد سعید مجددی سے درس لیا، شیخ المحدثین مدینہ منورہ سید علی بن ظاہر الوتری سےبھی کسب فیض کیا، ۱۳۲۷ھ میں حضرت مولانا شاہ محمد نعیم نبیرہ حضرت مولانا بحر العلوم فرنگی محلی نے فاتحۂ تشکر کے بعد دستار فضیلت باندھی اور سند مرحمت فرمائی، فراغت کے بعد دور عثمانی وہاشمی میں حضرت مولانا عبدالباقی کے مدرسۂ نظامیہ میں عرصہ فراغت کے بعد دور عثمانی وہاشمی میں حضرت مولانا عبد الباقی کےمدرسۂ نظامیہ میں عرصہ تک درس دیا، ن جدی تسلط کے بعد اپنے مکان پر یہ سلسلہ جاری رکھا۔
آپ کےاپنے والد ماجد سے سلسلہ قادریہ میں بیعت وخلافت تھی، ان کے علاوہ (۱)حضرت شاہ م عصوم (۲)مولانا عبد الباقی (۳)سید علی الوتری (۴)امام الدھر شیخ بدر الدین الحسنی الدمشقی (۵)شیخ عبد الحکیم افغانی (۶)شیخ احمد شمس مالکی قادری (۷)علامہ شیخ صلاح (۸)شیخ علی مبارک المغربی (۹)حضرت امین رضوان شیخ الدلائل مدینہ منورہ (۱۰)حسان الزمان مدافع عن سید الاکوان صلی اللہ علیہ وسلم شیخ یوسف بن اسمٰعیل النہبانی سے بھی اجازت وخلافت تھی، مگر آپ بیعت والد ماجد کےطریقہ قادری میں کرتےتھے، مدینہ طیّبہ کے آداب میں آپ کےاطوار امام مالک جیسے تھے، جہاں بھی ہوتے ہمیشہ یہ خیال رکھتے کہ حرم شریف کی طرف پیٹھ نہ ہو (۲)جس راستہ سے بھی گذر ہوتا اور گنبد خضراء نظر آتا تو آپ فوراً مؤدب دستب بستہ سلام عرض کرتے، پھر آگے پڑھتے، (۳)مسجد نبوی میں داخل ہونے سے پہلے سلام عرض کر کے داخلہ کی درخواست کرتے اور تھوڑا وقفہ ٹھہر کر قدم بڑھاتے، عموماً نمازیں حجرۂ سید النساء کے متصل ادا کرتے، (۴)حرم شریف نبوی میں سرجھکائے رکھتے، اور کسی سے کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتے، سلام کا جواب اشارہ سے دیتے، اور اگر کوئی گفتگو کی کوشش کرتا تو اشارے سے بتائے کہ گھر پر آو، (۵)نجدی اندامات قبور کے بعد جنۃ البقیع میں کبھی داخل نہیں ہوئے (۶)فصیل شہر اقدس کےاندر کبھی سواری کا استعمال نہیں کیا (۷)امر بالمعروف اور نہی من المنکر آپ کا خاص شیوہ تھا، اس میں امیر و غریب کی کوئی قید نہ تھی، جس کو غلطی کرتے دیکھتے فوراً ٹوک دیتے (۸)بد مذہبوں سے آپ کو سخت نفرت تھی، نجدی عقائد کے متبعین کو این تیمیہ وغیرہ کے اقوال ہی سے قائل کردیتے، آپ کو معاملات فقہی پر غیر معمولی عبور تھا، مقدمات میں شرعی نکات معلوم کرنے والوں کا آپ کےیہاں مجمع لگارہتا تھا، نجدی قاضی وعلماء آپ سے بہت گھبراتےتھے، اختلاف عقائد و مسلک کے باوجود سلاطین نجد آپ کے تبحر علمی سے مرعوب تھے۔
۱۲؍جمادی الاولیٰ ۱۳۷۴ھ کو بعد فجر اللہ اللہ کہتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔ اور اسیدنا ابراہیم ابن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جوار میں اپنے والد ماجد کے قریب دفن کیے گئے، اسی روز ریڈ یوجدّہ نے آپ کے وفات کی خبر نشر کی،
تصانیف:۔ (۱)الصواعق الملکوت علی استاذ شلتوت المصری ثبوت حیات سیدنا عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے بارے میںشیخ الازہر شلتوت مصری کے فاسد عقائد کا رد (عربی)
(۲)۔ سیرت شیخ یوسف النبہانی(غیر مطبوع، عربی) (۳)سیرت اعظم حسین رحمۃ اللہ علیہ (عربی،غیر مطبوعہ) (۴)رد تجدید واحیاء دین، ابو لاعلیٰ مودودی کے مزعومات کا رد (اُردو مطبوعہ) آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ محمد علاء الدین مدنی مالک فندق طیبہ مدینہ طیّبہ اعلیٰ اخلاق واوصاف اور فقہی مہارت میں نامور ہیں۔