حضرت مولانا شمس الدین محمد اسد علیہ الرحمۃ
آپ ظاہری علوم میں طبیعت کی جودت اور تیز فہمی میں پورے مشہور تھے۔فرماتے تھے کہ تحصیل کے زمانہ میں مجھے راہ خدا کے سلوک کی خواہش قوی ہوئی۔اس وقت زین الدین خوانی علیہ الرحمۃ طالبوں کے ارشاد اور مریدوں کے تربیت میں مشغول تھے۔میں ایک دن ان کی مجلس میں پہنچا۔ایک جماعت کو بیعت کر رہے تھے،ان کو توبہ اور ذکر کی تلقین کر رہے تھے۔درویشوں کا قاعدہ ہوتا ہےکہ جب درویش کسی کے ہاتھ کو بیعت کے پکڑتا ہے،تو بعض اس درویش کے دامن کو پکڑ لیتے ہیں،اور بعض اس دوسرے کے دامن کو جہاں تک کہ پہنچ سکے،پکڑتے ہیں۔میں نے ان بعض کا دامن پکڑا۔جب میں اس مجلس سے باہر نکلا،تو مدرسہ میں اسی حجرہ میں جہاں میں پڑھتا تھا۔ذکر میں مشغول ہوا،اپنے اندرون بدن ذکر کی تاثیر زیادہ پاتا تھا۔یہاں تک کہ میرا باطن بالکل اس درسگاہ کی طرف جذب ہوگیا۔اس لیے میں نے تحصیل علم کو ترک کر دیا۔آپ شیخ بہاؤالدین عمر کی خدمت میں بہت رہے ہیں،وہیں چلےکرتے تھے۔چنانچہ لوگوں کا یہ خیال ہوگیایہ ان کے مرید ہیں،لیکن وہ اس کا قرار نہ کرتے تھے۔مولانا فخر لورستانی کی خدمت میں بھی رہے ہیں۔مولانا نے اپنا جامع ان کو پہنایا تھا۔وہ اسی کبھی کبھی تیرک کے طور پر پہنا کرتے تھے۔آخر میں مولانا سعد الدین کاشفری کی خدمت میں بھی بہت رہے ہیں،مولانا سعد الدین ان کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ان کے ساتھ میں راہ میں جا رہا تھا۔ان سے باتیں کرتے کرتے۔وہاں تک پہنچے کہ یون کہا۔مجھ کو ان دنوں ایک کام آپڑا ہے کہ مجھے ہر گز اس کا گمان نہ تھا،اور نہ مجھے اسکی توقع نہ تھی ۔مجملاً اس طرف اشارہ کیا کہ میں اس کی اس تحقیق سے مقام جمع سمجھ گیا۔واللہ تعالی اعلم قال بعض العارفین اذانجلی اللہ سبحان بذاتہ لا حدیری کل الذوات و الصفات والافعال متلا شیتہ فی اشعۃ ذاتہ وافعالہ ویجد نفسہ مع جمیع المخلوقات کانھا مدیرۃ لھاوھی اعضا ئھا لا یلم بو احد منھا شئی الا ویراہ ملمابہ ویری ذاتہ الذات الواحد وصفتہ صفتھا وفعلہ فعلھا لا ستھلا کہ باالکلیہ فی عین التوحید ولیس للانسان وراء ھذہ المرتبہ مقام فی التوحید ولما انجذب بصیرۃ الروح الی مشاھدۃ جمال الذات استتر نور العقل الفارق بین الا شیاء فی غلبۃ نور الذات القد عیۃ وار تفع التمیز بین القدم والحدوث لزھوق البا طل عند مجئی الحق وقسمی ھذہ الحا لۃ جمعا یعنی بعض عارف کہتے ہیں کہ جب خدائے تعالی اپنی ذات سے کسی پر تجلی کرتا ہے ،تو یہ شخص تمام اشیاء و صفات و افعال کی شعاعوں میں فنا دیکھتا ہے،اور تمام موجودات کے ساتھ اپنے نفس کی ایسی نسبت پاتا ہے کہ گویا وہ ان موجودات کا مدبر ہے،اور یہ موجودات اس کے اعضاءہیںاور ان موجودات سے کوئی چیز نہیں اترتی۔مگر یہ کہ خیال کرتی ہے کہ میں اس کے ساتھ اتری ہوں۔اپنی ذات کو وہی ایک ذات حق خیال کرتی ہے۔اپی صفت کو اس کی صفت ،اور اپنے فعل کو اس کا فعل سمجھتی ہے۔کیونکہ بالکل عین توحید میں ہلاک ہوچکی ہے۔انسا نکے لیے اس مرتبہ کے سوا اور کوئی مقام توحید نہیں ہے،اور جب روح کی بینائی جمال ذات کے مشاہدہ کی طرف کھینچ جاتی ہے ،تو عقل کا وہ نور جو اشیاء میں فرق کیا جاتا ہے۔ذات قدیمہ کے نور کے غلبہ میں چھپ جاتا۔قدم و حدوث میں فرق جاتا رہتا ہے۔کیونکہ حق کے آنے کے وقت باطل مٹ جایا کرتا ہے۔اس حالت کا نام جمع رکھا گیا ہے۔ایک روز ان کے سامنے خربوزہ کاٹا گیا،جو بہت عمدہ لطیف و شیریں تھا۔جب آپ نے چکھا ،تو اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔لوگوں نے اس کا سبب پوچھا۔فرمایا،میرا اس سے لذت حاصل کرنا ۔مجھ کو اس حالت سے کہ جس میں اب ہوں،باز رکھتا ہے۔آپ کو حال اور وجد کامل تھا۔یہ کیفیت تھی کہ جب سماع کی مجلس میں آپ کی حالت بدلتی ،تو چیخیں نعرہ مارا کرتے۔جس سے اہل مجلس پر بھی عمل ہوجاتا اور سب کا وقت خوش ہوتا۔آپ شب جمعہ غرہ رمضان ۸۶۴ھ میں فوت ہوئے۔آپ کی قبر دھوبیوں کے گھاٹ پر شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کے قبر کے ینچے ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)