علامہ ابو سعید محمد عثمان قرانی بن حافظ جام قوم بھنبھرا ۲۷، صفر المظفر ۱۲۹۶ھ بروز جمعرات گوتھ ڈھینگان بھر گڑی تحصیل جیمس آباد ( کوٹ غلام محمد ) ضلع میر پور خاص ( سندھ ) میں تولد ہوئے۔
قرانی کی وجہ تسمیہ :
قرانی لفظ کے معنی ’’قریب شدن چیزے بچیزے ‘‘ یعنی دو چیزوں کو آپس میں ملانا جیسے حج و عمرہ ملانا جس کو حج قران کہتے ہیں وغیرہ اور نجومیوں کی اصطلاح میں دو ستاروں کا ملنا، ایک وقت برج میں۔ ان کو قران السعدین ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ یعنی نیک بخت اور سعادت مند۔
تعلیم و تربیت:
مولانا محمد عثمان کے والد حافظ دجام نے آپ کو سات سال کی عمر میں گوٹھ امیر علی خان رند میں میاں حاجی سید احمد شاہ صاحب کے پاس قرآ ن شریف کی تعلیم کیلئے مکتب میں داخل کرایا۔ حاجی سید احمد شاہ صاحب اس مکتب سے جلد رخصت ہو گئے جس کے سبب آپ واپس اپنے گھر آئے اور والد محترم کے پاس تعلیم قرآن جاری رکھی ۔ فارسی کی تعلیم میاں محمد علی پٹھان ( گوٹھ سید لاکھو شاہ ) کے پاس حاصل کی ۔ ( میاں محمد علی مرحوم کو شعر گوئی اور نظم سنجی میں کافی دسترس حاصل تھی، استاد محترم کی صحبت بافیض میں مولانا محمد عثمان قرانی نے بھی شاعری میں ملکہ حاصل کیا)۔ اس کے بعد عربی کی تعلیم حضرت قدوۃ العلماء قاضی القضاۃ علامہ مولانا لعل محمد مٹیاروی ؒ کی خدمت میں ٹنڈو میر غلام علی ( ضلع بدین ) میں شروع کی۔ صرف تمام ، نحو، شرح جامی ، علم فقہ میں ہدایہ شریف تک کتب پڑھیں اس کے بعد علم منطق و نحو خصوصی طور پر حضرت علامہ مولانا خیر محمد صاحب سے پڑھیں ۔ اس کے بعد دوبارہ حضرت علامہ قاضی لعل محمد مٹیاروی کی خدمت میں رہ کر بقیہ کتب احادیث وفقہ میں تکمیل پائی ۔ فارغ التحصیل ہوئے اور علامہ لعل محمد سے سند حاصل کی ۔ علامہ لعل محمد مٹیاروی ، مخدوم اہل سنت، علامۃ الزمان ، فھامۃ الدوران مخدوم حسن اللہ صدیقی قدس سرہ الاقدس کے خاص شاگرد رشید تھے۔ مخدوم حسن اللہ کون ؟وہی مخدوم صاحب ہیں جنہوں نے علماء سلف کی ترجمانی کرتے ہوئے شفیع اعظم ، نور مجسم ، ہادی عالم ﷺ کے علم غیب شریف کے اثبات میں انگریزوں کی دریافت ، فرقہ جدیدہ وہابی دیوبندی نظریات کے اکابر علماء مثلا:
٭ مولوی اسماعیل دہلوی ثم بالا کوٹی مصنف تقویۃ الایمان
٭ مولوی قاسم نانوتوی مصنف تحذیر الناس
٭ مولوی محمود الحسن دیوبندی مصنف جھد المقل
٭ مولوی اشرف علی تھانوی مصنف حفظ الایمان
٭ مولوی خلیل احمد انبیٹوی ثم سہار نپوری مصنف برہان قلطعہ
٭ مولوی رشید احمد گنگوہی مصنف فتاویٰ رشید یہ
٭ مولوی حسین احمد مدنی مصنف شہاب الثاقب
کی تردید میں معرکۃ الآ را کتاب ’’نور العینین فی اثبات علم غیب لسید المرسلین ﷺ ‘‘رقم فرمائی ۔ جس کی ضرب آج بھی باطل کے ایوانوں میں سنی جاتی ہے۔ اسی مخدوم ؒ کے تربیت یافتہ قاضی لعل محمد تھے اور ان کے فیض یافتہ مولانا محمد عثمان قرانی تھے۔
بیعت :
مولانا محمد عثمان قرانی کے دادا جان حضرت مخدوم ابو ا محمد عبداللہ ولہاری ؒ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں شیخ طریقت حضرت خواجہ عبدالرحمن جان سر ہندی مجددی فاروقی ؒ سے بیعت تھے۔ (دیکھئے : مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
حضرت خواجہ عبدالرحمن کے جانشین و لخت جگر علامہ خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ؒ ہیں تفصیلی حالات ان کے تذکرہ میں دیکھیں ۔ انہوں نے وہابیت دیونبدیت وغیرہ مقلدیت کی تردید میں دو کتابیں رقم فرمائی ۔ آپ کی ایک کتاب ’’الاصول الاربعہ فی تردید الوھابیہ‘‘ ہے جس کا سلیس اردو ترجمہ استاد العلماء مولانا حافظ محمد عبدالستار صاحب سعیدی ( ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ) نے کیا ہے۔ شروع کتاب میں مصنف کا سوانحی تعارف از قلم : ادیب شہیر ، سرمایہ اہل سنت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری مدظلہ بھی شامل اشاعت ہے۔ جسے رضا دار الاشاعت چاہ میراں ، محبوب روڈ لاہور نے شائع کیا ہے۔
حافظ عبدالرزاق مہران صاحب سانگھڑ سے راقم کے نام ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں :۔ مولانا محمد عثمان قرانی سنی حنفی نقشبندی تھے اور حضرت پیر طریقت ، قاطع نجدیت وبدعت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ؒ کے مرید و خاص مقرب تھے۔ جس کا ذکر حضرت آغا عبداللہ جان سر ہندی ؒ نے ’’مونس المخلصین ‘‘( فارسی ) میں کیا ہے۔ (مکتوب ۱۶، جنوری ۲۰۰۲ئ)
حضرت پیر ابراہیم جان سر ہندی صاحب رقمطراز ہیں :
مولانا محمد عثمان بڑے عالم بزرگ ولی اللہ تھے۔ وہ صحیح العقیدہ سنی عالم دین تھے، وہابیوں سے مناظر ے کئے ۔ حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی قدس سرہ کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت صاحب نے دیونبد یوں وہابیوں کے خلاف کتابیں لکھیں ان پر مولانا عثمان نے تقاریظ تائیدی نوٹ تحریر فرمائے ۔مگر ان کی اولاد و ہابی نظریات کی حامل ہو گئی ہے۔ ( مکتوبات خلیلی ۸۷)
دارالعلوم کا قیام :
۱۳۱۵ھ؍ ۱۸۹۷ء میں مولانا محمد عثمان قرانی نے اپنے گوٹھ عمر بھنبھر و نزد اسٹیشن شادی پلی ( تحصیل ساماروضلع عمر کوٹ) میں امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سر ہندی قدس سرہ کی نسبت مبارکہ سے ’’مدرسہ مجددیہ ‘‘قائم کیا۔
درس و تدریس :
تھر جو کہ قحط مفلسی کی وجہ سے شہر ت رکھتا ہے، وہاں جہالت کی کالک بھی مختلف نہ تھی ، جہاں پینے کے لئے صرف پانی نایاب نہیں بلکہ علم اس سے بھی کہیںزیادہ نایاب تھا ۔ ایسے علاقہ میں جہالت کے بادل تار تار کرنے کے لئے مولانا قرانی نے تعلیم قرآن کو فروغ دیا، علم کی روشنی کو عام کیا۔ آپ تدریس کے بادشاہ تھے۔ آپ کے درس کی شہرت سن کر دور دراز افتادہ علاقہ سے علم کے پیاسوں نے پیاس بجھانے کے لئے مدرسہ مجددیہ کا رخ کیا۔
تصنیف و تالیف:
روزانہ سارا دن درس و تدریس کی مصروفیت کے بعد تصنیف کا وقت کہاں ملتا ہے؟ لیکن آپ نے تدریس سے کچھ وقت نکال کر فتاویٰ تحریر فرمائیں اس کے علاوہ کچھ کتابیں تحریر کی اور بعض درسی کتب پر حواشی رقم فرمائی ۔ لیکن ہمیں ان کتابوں کے نام نہیں مل سکے ۔ آپ نے مدرسہ مجددیہ سے ماہنامہ قرانی ( سندھی ) بھی جاری فرمایا تھا۔
شخصیت :
مولانا محمد عثمان قرانی صاحب حدیث ، تفسیر ، فقہ ، صرف ، نحو، منطق صغریٰ و کبریٰ ، علم حکمت ، ہیئت ، فلسفہ ، ریاضی ، علم ادب ، سلوک ، تصوف ، طب، وغیرہ تمام علوم کا خود درس دیتے تھے۔ جامع العلوم اور کمال تفقہ کے سبب اپنے وقت کے ’’مفتی اعظم ‘‘تھے۔
مولانا قرانی نہایت پرہیز گار ، شب خیز عابد، اور ادمجددیہ نقشبندیہ کے پابند ، وسیع مطالعہ ، مہمان نواز، سادہ طبیعت ، حسن اخلاق و سادگی کے پیکر ، ذہین ، قوی الحافظ ، صاحب الراء ، جفاکش اور دن رات درس و تدریس ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ مسلسل جدوجہد سے صحرائے تھر میں علم کے پھول کھلائے ۔
پیدائش سے پہلے درویشوں ، مجذوبوں ، اللہ لوک فقیروں نے آپ کی ولادت کی بشارت دی اور بعد ولادت دعائیں دیں ۔ مولانا قرانی فقیروں درویشوں کی عطا تھے ۔ درویشوں کی اس دین نے صحرائے تھر کو علم دین سے روشن کیا۔ اور یہ روشنی ابھی تک بجھی نہیں بلکہ اس روشنی سے مساجد مدارس آج بھی روشن و منور ہیں ۔
ان دنوں میں ( آٹا پیسنے کی فلورمل وغیرہ ابھی دریافت نہ ہوئی تھی ) آپ ک والدہ محترم آٹا چکی پر خود پیس کر طلباء کے لئے روٹیاں پکایا کرتی تھیں ۔
مناظرہ :
آپ پیارے مصطفیﷺ کے نڈر سپاہی تھے، اہلسنت و جماعت کے نامور عالم و ترجمان تھے اس لئے باطل کو ہمیشہ للکارتے رہے۔ آپ نے باطل مذاہب کے علماء سے کئی کامیاب مناظرے کئے جس میں مخالف کو منہ کی کھانی پڑی ۔ آپ حاضر جوابی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
ضلع بدین کے غیر مقلدین وہابیوں کے ساتھ ’’فاتحہ خلف الامام ‘‘ کے موضوع پر مناظرہ کیا۔ جس میں آپ کو کامیاب قرار دیا گیا ۔ عیسائیوں کے پادریوں سے ’’حیات مسیح ‘‘ کے موضوع پر ’’گوٹھ فقیر صوفی حاجی محمد صاحب ‘‘ نزد عمر کوٹ میں کامیاب مناظرہ کیا جس میں مخالف کو شکست فاش ہوئی ۔ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے پھانسی دے دی تھی اس لئے وہ ’’صلیب کا نشان ‘‘ حضرت عیسیٰ کی وفات کے غم میں استعمال کرتے اور گلے میں لٹکاتے ہیں ۔ جب کہ قرآن مجید کا اعلان حق ہے کہ مسیح حیات ہیں اور آسمان پر اٹھائے گئے ہیں ۔ حیات مسیح پر آپ نے مدلل روشنی ڈالی ۔
شاعری :
آپ نے زمانہ طالب علمی سے شعر گوئی شروع کر رکھی تھی ۔ آپ کا کلام ( نعت ، غزل ، نظم ) عربی فارسی اور سندھی میں دیگر قلمی مواد کے ساتھ مدرسہ کے کتب خانہ میں موجود ہے ۔ تخلص ’’قرانی ‘‘تھا۔
اولاد :
مولانا قرانی کو تین بیٹے تولد ہوئے۔
٭ مولوی عبدالحئی
٭ مولوی محمد سعید
٭ مولوی عبدالحق
تلامذہ :
مولانا قرانی کے تلامذہ کا شمار مشکل ہے، یہاں بعض کے اسماء درج کئے جارہے ہیں:
٭ مولانا نور محمد بھنبھر و ( قرانی صاحب کے برادر )
٭ مولانا احمد آریسر جودھپوری
٭ مولانا محمد صالح (قرانی صاحب کے برادر)
٭ مولانا عبداللہ ولھاری
٭ مولانا محمد حسن ریاست جودھپور (انڈیا)
٭ مولانا غوث محمد خان بھر گڑی
( ان کے شاگرد پیر ابراہیم جان سر ہندی ، سامار و والے تھے)
٭ مولانا محمد سلیمان ہالیپوتہ ریگستانی
٭ مولانا نور محمد سمون
٭ مولانا قاضی نور محمد پلی
٭ مولانا عبدالکریم مفتی ولہیٹ
٭ مولانا نبی بخش لغاری
٭ مولانا محمد علی صاحب مشائخ پوتہ
٭ مولانا علی محمد صاحب لسبیلہ بلوچستان
٭ مولانا حاجی محمد کھوسہ جیکب آباد
٭ مولانا یار محمد لغاری ٹنڈو محمد خان ضلع حیدرآباد
٭ مولانا حافظ عبداللہ میمن
( نیبرہ حضرت مولانا مفتی حامد اللہ میمن گوٹھ بیلو ، سجاول ضلع ٹھٹھہ)
٭ مولانا ولی محمد ( نواسہ مفتی حامد اللہ میمن ؒ)
٭ مولانا رسول بخش
٭ مولانا عبدالرحمن درس علاقہ کچھ (انڈیا)
٭ مولانا مرید علی ہالیپوتہ
٭ مولانا محمد یعقوب خاصخیلی بدین وغیرہ وغیرہ
مولانا قرانی کا مسلک :
آپ کے مسلک کا ذکر مضمون میں ضمنا آچکا ہے۔ یہاں مسلک مبارک کی مختصر جھلک پیش کی جاتی ہے۔ مولانا قرانی نے ایک نعت شریف ( سندھی ) میں نبی کریم ﷺ کو ’’احمد مختار ‘‘ساری دنیا کے صاحب و سردار ، محشر میں گنہگار وں کے ضامن اور شفاعت کرنیوالا، حضور کے سوا جائے پناہ نہیں۔ ’’بے وسیلوں کے وسیلہ ‘‘ گمراہوں کے ہادی لکھا ہے۔
(سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
یہ نظریات کسی وہابی دیوبندی مولوی کے ہر گز نہیں ہوسکتے اس سے ثابت ہوا کہ یہ نظر یہ رکھنے والے مولانا قرانی خالص سنی عالم دین تھے۔ بابائے وہابیت مولوی اسماعیل دہلوی ثم بالا کوٹی کا نظریہ باطل ہے: ’’محمد اور علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ‘‘۔ (تقویۃ الایمان )
یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور امیر المومنین سید نا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کسی چیز کے مختار نہیں اور دوسرا یہ کہ نام مبارک انتہائی حقارت آمیز لہجے میں لکھا ہے۔ یہ گھٹیا سوچ ، دلی نفرت اور رسول دشمنی وہابی کے سوا کسی مسلمان کی ہو نہیں سکتی ۔ جب کہ مولانا قرانی کا نظر یہ و مسلک ہے کہ حضور پر نور صاحب لولاک ﷺ احمد مختار ، شافع محشر اور گمراہوں کے ہادی ہیں ۔ مولانا نے اپنا نظر یہ واضح بیان کر کے دیوبندیوں ، وہابیوں کے امام کے نظر یہ کی دھجیاں اڑادیں ۔
وہ رضا کے نیزے کی مارہے کہ عدو کے سینہ میں غار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے پار ہے
نعت کے سوا مولانا قرانی نے اصلاحی نظم بھی لکھی ہیں ۔ ایک تنقید ی نظم میں گاندھی پر تنقید کی ہے۔ یہ گاندھی وہ ہے جس کو تحریک خلافت کے دور میں ہندو سندھ کے دیوبندی مولویوں نے اپنا رہبر و رہنما منتخب کیا تھا اور اس کے اشارے پر چلا کرتے تھے ۔ اسی دور میں دارالعلوم دیوبند سے ’’ہندو مسلم بھائی بھائی ‘‘کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ ان حالات میں مولانا قرانی نے ان پر طنز یہ فرماتے ہیں :
امامن ء صحابن جو کیل تفسیر باطل تیو
سنایل حکم گاندی جو روایت رکٹ گھرجی
ائمہ اور صحابہ کرام کا قرآنی تفسیر باطل ہوا، گاندھی کا حکم روایت میں رکھنا چاہئے!!
وصال:
مولانا قرانی ہمیشہ اپنا کفن ساتھ رکھتے تھے، کبھی بھی موت سے غافل نہ رہے۔ تقریبا ڈیڑھ سال بیمار رہنے کے بعد ۱۵، رجب المرجب ۱۳۵۵ھ؍ ۱۹۳۶ء بروز پیر صبح کو ۵۹ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اسی کفن میں دفن کئے گئے جو کہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا۔ آپ کی آخری آرامگاہ مدرسہ کا وہی کمرہ بنا جہاں آپ درس دیا کرتے تھے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )