حضرت علّامہ مولانا وَلی محمّد، اچھرہ لاہور علیہ الرحمۃ
حضرت علّامہ مولانا ولی محمد صاحب آج سے ۷۵[۱] سال پہلے موضع ہرَ چوکی تحصیل چونیاں ضلع قصور کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کاشت کاری کرتے تھے۔
[۱۔ تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہوسکی۔ (مرتّب)]
آپ نے علومِ عربیہ کی متداول کتب مختلف مقامات پر پڑھیں لاہور کے جامعہ فتحیہ اچھرہ سے آغاز کیا اور یہاں اکثر کتب کادرس استاذ العلماء حضرت مولانا مہر محمد سے لیا۔ اس کے بعد بھیرہ میں مولانا ظہور احمد بگوی کے مدرسہ عزیزیہ بگویہ کا رُخ کیا اور یہاں مولانا عبد الحمید سے اکتسابِ فیض کیا چچھ ہزار میں بھی کچھ مدّت تعلیم حاصل کی چھپڑ شریف علاقہ سون سکیسہ میں اکثر کتب منطق و فلسفہ حضرت علّامہ مولانا سلطان اعظم سے پڑھیں۔ ملوالی ضلع کیمبل پور میں حضرت مولانا نور محمد سے بھی پڑھتے رہے۔ کچھ عرصہ حضرو (کیمبل پور) کے مضافات میں حضرت مولانا عبد الحق سے فیض حاصل کرنے کے بعد ترگ شریف(کالا باغ) تشریف لے گئے اور یہاں ہی سے علوم و فنون کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل کی۔
تدریس کا آغاز آپ نے ترگ شریف سے ہی کیا اور تین چار سال تک یہاں پڑھاتے رہے بعد ازاں بیماری کی وجہ سے آپ کو لاہور آنا پڑا یہاں اپنے استادِ محترم مولانا مہر محمد رحمہ اللہ کی نگرانی میں تدریس شروع کی، لیکن کچھ عرصہ بعد بوجوہ آپ کو تدریس ترک کرنا پڑی۔ اسی اثناء میں آپ مسجد رسول پورہ اچھرہ میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اس مسجد میں تقریباً ستائیس اٹھائیس سال سے امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے کے بعد آج کل آپ اپنا سارا وقت یادِ خداوندی میں گزارتے ہیں۔
حضرت مولانا ولی محمد نہایت سادہ منش ہیں اور تکلّفات سے دُور رہتے ہیں آج کل تجرّد کی زندگی گزارتے ہیں۔
طالب علمی کے زمانے میں جبکہ آپ ہدایۃ الخو وغیرہ پڑھتے تھے، اپنے استاذِ محترم مولانا مہر محمد رحمہ اللہ کے مشورہ اور حکم پر حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ(گولڑہ شریف) کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔
آپ ایک مرتبہ پیدل حج پر تشریف لے گئے یہ فیلڈ مارشل محمد ایّوب خاں کا دورِ حکومت تھا گوادر سے واپس کردیا گیا اور دوسرے سال بذریعہ بَس پہنچے اور حج و زیارت کے شرف سے مشرّف ہوئے۔
حضرت مولانا ولی محمد نے ملاقات کے دوران منطق سے اپنا عدم لگاؤ اور اس پر حضرت خواجہ پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ کی تنبیہ کا عجیب واقعہ سنایا، آپ خود فرماتے ہیں:
’’میں ملوالی ضلع کیمبلپور میں منتہی کتب کا طالب علم تھا اور چھوٹے اسباق بھی پڑھاتا تھا ایک مرتبہ میں نے کہا کہ منطق کی تعلیم و تعلّم وقت کا ضیاع ہے۔
جمعرات کی رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت پیر صاحب تشریف لائے۔ میں نے انہیں چار پائی پر بٹھایا اور ان کے لیے لالٹین لے کر آیا آپ نے فرمایا منطق کی کتابیں حمد اللہ قاضی میر زاہد وغیرہ لاؤ۔ جب میں وہ کتب لایا، آپ نے مجھے پڑھانا شروع کردیا اور فرمایا ابھی تم نے نہیں پڑھی ہیں ساری رات مجھے پڑھاتے رہے یہاں تک کہ بوقتِ وضو بھی پڑھاتے رہے۔
جب میں بیدار ہوا، تو حیران تھا کہ کیا ماجرا ہے، چنانچہ تین چار گھنٹے بیہوش رہا اور پھر جب ہوش میں آیا، تو اپنے سابقہ الفاظ واپس لیے اور حضرت پیر صاحب کی تربیّت پر خوشی ہوئی۔[۱]
[۱۔ یہ تمام کوائف مورخہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۷۷ء / ۲۷؍ رجب المرجب ۱۳۹۷ھ کو حضرت مولانا سے بالمشافہ معلوم ہوئے۔ (مرتّب محمد صدّیق ہزاروی)]
(تعارف علماءِ اہلسنت)