حضرت مولانا زین الدین ابو بکرتایبادی علیہ الرحمۃ
آپ علوم ظاہریہ میں مولانا نظام الدین شاگرد ہیں"لیکن شریعت پر عمل کرنے اور سنت کی متابعت سے علوم باطنی کے دروازے ان پر کھل گئے۔ارباب ولایت کے حالات و مقامات عالیہ ان کو حاصل تھے۔وہ در حقیقت ایسے تھے۔روحانی تربیت شیخ السلام احمد نامقی جامی قدس اللہ تعالٰی سرہ سے پائی تھی۔ان کی تربیت مقدسہ کی ملازمت بہت کرتےتھے۔ایسا کہتے ہیں کہ اس کے بعد مولانا نے ایک مدت تک ریاضات مجاہدات میں اشتعال کیا۔شیخ السلام احمد علیہ الرحمۃ ان پر ظاہر ہوئے اور کہا کہ خدائے تعالٰی نے تمہارے درد کا دارو شفاخانہ میں رکھا ہے۔مولانا سات سال تک پیادہ اور اکثر ننگے پاؤں تایباد سے ان کے مزار مبارک پر جایا کرتے تھے اور قرآن کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے اور جب ان کے مزار مقدس پر پہنچے تو اس گنبد میں جو کہ ان کے مقابل ہے۔قیام کرتے اورقرآن شریف کی تلاوت میں مشغول ہوتے اور ایک مدت کےبعد تھوڑا آگے بڑھتے۔یہاں تک کہ سات سال میں ان کے مزار شریف کے سامنے پہنچے۔اس کے بعد جب ان کے مزار پر پہنچے تو بیٹھے اور ان کو اس اختلاف حالات سے کہ کچھ وقت دور کھڑے رہتےاور کبھی نزدیک اور آخر میں بلاتوقف بیٹھ جاتے۔سوال کیا گیا تو جواب دیا کہ یہ سب باتیں آنحضرتﷺ کے امرواشارہ سے ہوتی ہے۔اس کے بعد کہ تیس سال اس طریق پر گزرے۔ان کے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ جو کچھ مجھے معلوم ہواہے۔۔وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے ہزار ختم اس طریق پر کیے تھے۔حضرت شیخ السلام کی روحانیت سے یہ اشارہ ہواکہ مشہد مقدس رضوی سلام اللہ علی من حل ضیہ کی زیارت کا احرام باندھے۔بندہ وہاں پر گیا اور خلعتیں"نوازشیں پائیں۔وہاں سے مزارات طوس کے طواف کا ارادہ کیا۔رات کو شیخ ابو نصر سراج کے مزار متبرک پر حضرت رسالت پناہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں۔کل تم کو طوس میں ایک برہنہ درویش ملے گا۔اس کی عزت و تعظیم کرنا"لیکن سجدہ نہ کرنا۔جب میں صبح کو طوس میں آیا۔بابا محمود طوسی کو کہ ایک مجذوب تھے۔وہ اسی حالت پرجیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا"آرہے تھے۔اس نے جب مولانا کو دیکھاتو خود زمین پر گرگیا اور نہدہ میں سر چھپالیا مولانا ان کے سامنے گئے اور کچھ دیر کھڑے رہے اس نے ایک گھڑی کے بعد نہدہ سے اپنا پاؤں باہر نکالا اور کھڑا ہوگیا اور اپنے آپ میں کہنے لگا"اے بے ادب اس شخص کی تو تعظیم نہیں کرتا کہ کل پیغمبرﷺنے شیخ ابو نصر سراج کے مزار پر تجھ سے ملاقات کی اور اس کا تجھے نشان دیا کہ جس سے آسمان کے فرشتے بھی شرم کرتےہیں۔مولانا نے ان کو سلام کہا۔انہوں نے جواب دیا اور کہا جائیے کہ رودبار کے اولیاء تمہارے آنے کے منتظر ہیں اور کہتے ہیں کہ مولانا اس کے بعد ہر سال اپنے ایک خاص مرید کو بابا محمود کی خدمت کے لیے بھیجا کرتے اور وہ ان کی باتیں لکھ کر لاتا"اگر وہ باتیں عقل مندوں کے طریق پر نہ ہوتیں تو مولانا ان کا معنی سمجھ جاتے اور ان کا مقصود جان لیتے۔خواجہ محمد پارساعلیہ الرحمۃ آخری دفعہ جو حج کو گئے اور مرقد مطہر مولانا پر آئے فرماتے تھے کہ پہلی دفعہ جبکہ میں خواجہ بزرگ خواجہ بہاؤ الدین قدس اللہ تعالٰی سرہ کے ہمراہ حج کو جاتاتھا۔جب ہم مرد میں پہنچے تو قافلہ کے دوگروہ ہوگئے۔بعض تو مشہد مقدس رضوی کو جانا چاہتےتھے اور بعض ہرے کی طرف جانا چاہتے تھے۔یہ بات قرار پائی کہ نیشاپور میں سب جاکر جمع ہوں۔حضرت خواجہ ہرے کی طرف چلے اور فرمایا"ہم چاہتے ہیں کہ مولانا زین الدین ابو بکر کی خدمت میں جائیں۔میں جو ان تھااور مولوی کی حالت سے مجھے واقفی نہ تھی۔میں مشہد میں گیا۔خواجہ محمد اس مطلب پر ندامت کا اظہار کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ جب حضرت خواجہ تائباد میں پہنچے اور صبح کی نماز مولاناکے ساتھ جماعت سے اول صف میں پڑھی۔جیسا کہ ان کا طریق تھا"مراقبہ میں بیٹھے تھے۔
جب مولانا وظائف سے فارغ ہوئے اٹھے اور ان کے سامنے آکر معانقہ کیا اور نام پوچھا۔خواجہ نے فرمایاکہ بہاؤ الدین مولانا نے کہا کہ ہمارےلیے نقش لکھ دو۔خواجہ نے فرمایا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ نقش لے جائیں۔مولانا ان کو گھر میں لے گئے اور دو تین دن اکٹھے رہے۔خواجہ کے ایک مرید نے حج کا ارادہ کیا تھا۔خواجہ نے اس کونصیحت کی تھی کہ مولانا زین الدین ابو بکر کی صحبت و زیارت کرنا۔کیونکہ وہ شریعت پر عمل کرنے سے ایک طریقت و حقیقت کے عالی مقامات تک پہنچے ہیں۔اس کتاب میں کہ شیخ عالم مفسر"شیخ معین الدین جنید شیرازی نے مزار امت شیراز کی شرح میں تصنیف کی ہےلکھا ہے کہ مولانا روح الدین ابو المکارم بن ابی بکر البلدی جو کہ بڑے عالم فاضل مشہور شریف اوصاف سے موصوف اور حمید اخلاق سے معروف تھے۔بڑے بڑے استادوں کی خدمتیں کی تھیں۔عالی سندیں رکھتے تھے۔برسوں پرانے کپڑوں میں درس میں مشغول رہتے تھے۔۷۸۷ھ میں فوت ہوئے تھے۔ان کی وفات کے چندروز بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا تو کہا کہ علماء کے مراتب ہوا کرتے ہیں اور کیسے مراتب کہ ان میں اور انبیاء میں صرف ایک درجہ کا فرق ہوا کرتا ہے۔میں نے ان میں سے سوال کیا کہ جو علماء اس وقت زندہ ہیں۔ان سےکون سا عالم سب سے بڑھ کر خدا کا مقرب ہے؟کہا"مولانا زین الدین ابو بکر تائبادی۔میں ان کو نہ جانتا تھا۔جب میں خواب سے بیدار ہوا تو میں نے ان کی تلاش کی۔جس شخص نے کہ ان کو خراسان میں دیکھاتھا۔وہ ان تعریف و توصیف کرتا تھا۔آپ دوپہر کے وقت جمعرات کے دن آخر ماہ محرم الحرام۷۹۰ھ میں فوت ہوئے۔ملک عماد الدین زوزنی نے ان کی تاریخ وفات کہی ہے۔قطعہ
سنہ احدی وتسعین بود تاریج گذشتہ ہفتہازسلخ محرم
شدہ نصف النہار یخشنیہ کہ روح پاک مولانا ء اعظم
سوئے خلد بریں رفت وملائک ہمہ گفتند ازبان خیر مقدم
(نفحاتُ الاُنس)