حسانِ پاکستان، حضرت مولانا ضیاء القادری بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا کا تاریخی نام ’’محمد فضل الرحمن ‘‘ عرفی نام ’’ محمد یعقوب حسین ‘‘ قلمی نام ضیاء القادری تخلص ’’ ضیاء ‘‘ اور خطابات لسان الحسان ، شاعر اہل سنت ، حسان پاکستا ن اور مورخ اہل سنت ملے ہوئے تھے ۔ ۲۶، رجب المرجب شب معراج نبوی ۱۳۰۰ ھ بمطابق ۲، جون ۱۸۸۳ء کو بعد نماز عشاء مدینۃالعلم بدایون ( بھارت ) میں تولد ہوئے ۔ آپ کے مورث اعلی مولاناخواجہ عبداللہ چشتی بدایون کے مایہ ناز عالم اور مشہور محدث و مفسر تھے ۔ چار سال کی عمر میں والدین کا سایہ عاطف سر سے اٹھ گیا اس لئے تربیت کا انتظام غالب و مومن کے شاگرد مولانا علی احمد خان نے کیا۔
تعلیم و تربیت :
جب مولانا کی عمر سات سال ہوئی تو انہیں افاضل اساتذہ نے پڑ ھانا شروع کیا۔ پہلے قرآن مجید پڑھایا پھر فقہ ، تفسیر اور حدیث کی کتابیں پڑھائیں ۔ تقریبا چودہ سال کی عمر میں آپ نے عالمانہ استعداد حاصل کر لی ۔
سفر حرمین شریفین :
آپ ہندوستان سے پاکستان مستقل منتقل ہوئے اور ۱۳۲ھ؍ ۱۹۴۸ء میں آپ کو حج و زیارت روضہ رسولﷺ کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ کو یہ امتیازی کے مزار پر انوار ( بغداد شریف ) پر حاضری بھی نصیب ہوئی ۔
عادات و خصائل :
مولانا ضیاء القادری نہایت خلیق اور سراپا درد بزرگ تھے ، ایثار و خلوص کی جیتی جاگتی تصویر تھے ، انکسار پسند ، اور شگفتہ مزاج تھے ، ظاہری شان و شوکت سے آپ کو کوئی لگاوٗ نہ تھا ، تقویٰ و پرہیز گاری میں سلف صالحین کا بہتری نمونہ تھے ۔
۱۹۱۷ء سے ایک عرصہ تک آپ کے زیر اہتمام بدایون میں رجبی شریف کے عظیم الشان جلسے منعقد ہوتے رہے ۔ تقریبا ۳۵ سال تک سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے اس کے باوجود علم و ادب کی وہ گراں قدر خدمات انجام دیں جنہیں تاریخ فراموش نہیں کر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نظم و نثر پر یکساں قدرت عطا فرمائی تھی ۔
تلامذہ :
پاک و ہند کے مشہور شعرائے کرام مثلا شکیل بدایونی ، اختر الحامدی ، مضطر صابری ، ماہر القادری طالب انصاری ، محشر بدایونی، سحر اکبر آبادی ، تابش قصوری ، صابر براری اور رضا قریشی آپ کے ممتا ز شاگرد ہیں ۔
شاعری :
دہلی میں حضر ت شاہ کلیم اللہ جہا ں آبادی ؒ کے دربار سے شائع ہونے والے مشہو ر مجلہ ماہنامہ ’’ آستانہ ‘‘ کے آ پ شاعر خصوصی تھے ۔ آپ کلام طویل عرصہ تک آستانہ دہلی میں’’ شاعر آستانہ ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا ہے ۔
خواجہ حسن نظامی آپ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ مولانا ضیاء القادری کے کلام میں ایسی مذہبی زندگی ہے جو ایک دفعہ کے لئے ان مردہ دلوں کو بھی گر مادے گی جو مذہبی تا ثرات کے معاملہ میں بالکل ٹھنڈے ہو چکے ہیں ‘‘۔
ناصر اسلام خطیب اہل سنت مولانا پیر سید عبدالسلام قادری باندویؒ (سن وصال ۱۹۶۸ئ) آپ کی شاعر ی و شخصیت پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں ‘‘۔
’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوق شعر و ادب قدرت نے کمسنی ہی سے آپ کی فطرت میں و دیعت فرمایا تھا ۔ دس سال کی عمر میں آپ بے ساختہ شعر کہنے لگے تھے چونکہ ہوش سنبھالتے ہی حضرت زبدۃ العرفاء مولانا علی احمد خان صاحب اسیر قادری نقشبندی بدایونی شہید مدینہ ؒ کی تعلیمی برکات نے آپ کو اعلی حضرت ، قطب ربانی محب یزدانی ، تاج العلما ء ، سراج الاولیاء ، تاج الفحول ، محب الرسول، مظہر حق ، مولانا عبدالقادر الثانی العثمانی فقیر نواز فقیر قادری بدایونی جیسے خدا رسیدہ قطب وقت کی خدمت میں پیش کر کے ان کی مقبول دعاوٗ ں کا مستحق بنا دیا تھا ۔ اس لئے آپ کی طبع رسانے کسی وقت بھی مجازی شاعری کی طرف رغبت نہ کی اور نعت و مناقب ہی کے لئے آپ کی زندگی وقف ہوگئی۔ حضرت محسن کا کوری ، حضرت امیر مینائی ، حضرت حافظ پیلی بھیتی ، حضر ت حسن بریلوی ، حضرت رضوان مراد آبادی کے بعد ہندوستان میں آپ کو جو انفرادیت اور مقبو لیت حاصل ہوئی اس سے تمام علماء و مشائخ اور دنیائے شعرو ادب واقف ہے ۔ لسان الحسان ، شاعر اعظم اہل سنت ، حسان پاکستان آپ کے وہ خطابات ہیں جوا کا بر علماء و مشائخ نے آپ کو عظیم الشان اجتماعات میں دیئے ہیں ۔ آپ کا مشغلہ حیات مستقل طور پر تبلیغ و ترویج محبت و عظمت حضور خاتم المرسلین و رحمتہ للعالمین ہے ۔ آپ کے مضامین نظم و نثر نصف صدی پیشتر سے اخبارات و رسائل میں شائع ہو رہے ہیں ۔ بکثرت تصانیف آپ کی منظر عام پر آچکی ہیں آج بھی رسالہ آستانہ دہلی آپ کے رشحات قلم سے سیراب ہورہا ہے ۔ مشاہیر اساتذہ اہل سخن کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔ ’’ مرقع شہادت ‘‘ آپ کے مخزن تصانیف کا وہ پیش بہا سرمایہ ہے جو دس سال پیشتر چھپ کر اپنی مقبولیت عامہ کے باعث بالکل نایاب ہو چکا تھا ۔
آج ارباب نظر کے سامنے میں فخر و مباہات کے ساتھ ’’ مرقع شہادت ‘‘ پیش کرنے کی عزت حاصل کر رہا ہوں ، علماء اہل سنت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم میں مرقع شہادت تمام اصناف سخن اور صحت واقعات کے اعتبار سے بے مثل کتاب ہے اور ہر گھر میں اس کتاب کا ہونا چاہئے۔
اس کو دربار رسالت کا عطیہ کہیں کہ حضرت مولانا ضیاء القادری مد ظلہم کو باوجود ان کمالات عظیمیہ کے شہرت نام و نمود سے ہمیشہ اجتنا ب ہی نہیں بلکہ قطعا بے تعلقی رہی ، یہی وجہ ہے کہ ااپ کے سات دیوان موجود ہوتے ہوئے صرف دو دیوان تاج مضامین منقبت میں ’’ تجلیات نعت ‘‘ نعت شریف میں مطبوع ہو کر مفقود ہو گئے ہیں ۔ باقی منظومات کا دفتر ہنوز غیر مطبوعہ موجود ہے۔
( مرقع شہادت ، طبع دوئم، انجمن امانت الا سلام )
علامہ عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمۃ رقمطراز ہیں: علماء و مشائخین ارباب علم و ادب یکساں طور پر ضیاء کی نظموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مولانا ضیاء القادر محض ایک کامیاب شاعر ہی نہیں بلکہ علم و اد ب اور ’’فن تاریخ‘‘ میں بھی خاص ادراک اور مہارت رکھتے ہیں اور کثیر تصانیف ملک کے سامنے پیش فرما چکے ہیں‘‘ (مرقع شہادت ، تقریظ)
تصنیف و تالیف:
مولانا نے نظم و نثر میں تصانیف کا گراں قدر ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے آپ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں
٭ اکمل التاریخ (۲ جلدیں) حضرت مولانا فضل رسول قادری علیہ الرحمۃ کا مفصل خاندانی تذکرہ مطبوعہ نظامی پریس بدایون ۱۹۱۵ء
٭ تاریخ اولیائے بدایوں مطبوعہ کراچی ۱۳۷۷ء
٭ تجلیات نعت۔ تاج مضامین (مناقت) ستارہ چشت ۔ دیار نبی۔ جوار غوث الوریٰ
٭ ہفت احمد۔ قصائد صبح نورانی۔ مجموعہ سلام۔ کلام ضیائ۔ خزینہ بہشت۔ نغمہ ربانی۔ بہار چشت۔ چراغ صبح جمال
٭ مرقع شہادت (نظم) طبع اول بدایون ۱۳۶۰ھ ؍ ۱۹۴۱ء ، طبع دوم انجمن امانت الا سلام کراچی ۱۹۵۱ء
٭ قصائد نورانی
٭ ماہنامہ نعت لاہور نے جولائی ۱۹۸۹ء کے خصوصی شمارہ میں ’’ کلام ضیاء ‘‘ شائع کیا ۔
حضرت مولانا ضیاء القادری نے الحاج علی ھسین آباد ( سابق استاد کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کو ئٹہ ) کی کتاب ’’ مصباح الاخرت ‘‘ پر تقریظ میں لکھتے ہیں :
غیر منقسم ہندو ستان میں ایک ہزار سال تک اسلامی سلطنت قائم رہی ۔ تمام اسلامیان ہند کا ایک ہی مذہب و مسلک رہا ۔ انگریز کے قدم آنے سے قبل مسلمانان ہند واعتصمو ا بحبل اللہ جمیعا الا تفرقو ا پر پورے استحکام کے ساتھ عامل تھے۔ عاملین برطانیہ نے اپنے جبلی فریب سیاست سے سواد الا عظم اسلام میں اخنہ اندازی شروع کی اور نئے نئے مذاہب جاری کر ا کے ان کو پروان چڑھا یا اور اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والوں میں تفرقہ اندازی کی داغ بیل ڈالی ۔
دور آخر میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور سیاسی و ملکی حقوق کے حصول کیلئے مسلم لیگ ایک نصب العین لے کر میدان عمل میں آئی ۔ دنیانے دیکھ لیا کہ انگریز کے بنائے مذاہب اور فرنگی کے مرغان دست پرور نے مسلم لیگ اور ان کے نصب العین پاکستان کی شدیدمخالفت کی مگر سواد الاعظم اسلام یعنی مذہب اہل سنت والجماعت اور اس کے علماء و مشائخ نے سر دھڑ کی بازی لگا کر پاکستان حاصل کر لیا ‘‘۔
( مصباح الآ خرت مطبوعہ کراچی ۱۹۵۴ء )
بیعت:
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت مولانا عبدالرسول محب احمد قادری سے دست بیعت تھے اور حضرت علامہ عبدالمقتدد بدایونی قادریؒ کے خلیفہ مجاز تھے ۔ (بزرگان قادریہ ص ۲۲۹)
شادی و اولاد :
آپ نے ایک شادی کی جس سے نرینہ اولاد میں سے محمد یوسف قادری تولد ہوئے لیکن آج وہ بھی ہم میں موجود نہیں ہے۔
وصال :
مولانا ضیاء القادری نے ۱۲ جمادی الآخر ۱۳۹۰ ھ بمطابق ۱۵اگست ۱۹۷۰ء بروز ہفتہ ۸۷سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ مزار شریف فیدرل بی ایریاکے قبرستان ( کراچی )میں واقع ہے ۔
( تذکرہ اکابر اہل سنت مطبوعہ لاہور )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)