مولانا غلام محی الدین بگوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا غلام محی الدین بگوی۔لقب:فاضلِ اجل،عالم ِبےبدل۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولانا غلام محی الدین بن حافظ نور حیات بن حافظ محمد شِفا بن حافظ نور محمد بگوی علیہم الرحمہ۔آپکاتعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔علم کےساتھ ساتھ تقویٰ کی دولت سےبھی مالا مال تھے۔بالخصوص آپ کےوالد گرامی حافظ نور حیاتشب بیداراور باعمل حافظ ِ قرآن اور صاحبِ کرامات تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروزپیرماہ ِمحرم الحرام/1210ھ مطابق جولائی/1795ء کوموضع’’بُگہ‘‘نزد بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔حدائق الحنفیہ کےمصنف از مولانا فقیر محمد جہلمی نےصفحہ نمبر494پرآپ کا سنِ ولادت 1203ھ تحریرکیا ہے۔مگرآپ کےپوتے جناب مولانا ظہوراحمد بگوی علیہ الرحمہ ’’تذکرہ مشائخِ بگہ‘‘ میں اپنے خاندانی کاغذات ودستاویزات کی روشنی میں ثابت کیا ہےکہ آپ کاصحیح سنِ ولادت 1210ھ ہے۔(تذکرہ علمائےاہل سنت وجماعت لاہور:145)
ولادت سے قبل بشارت: آپ کو صغر سنی میں آپ کے والد ماجد جو ایک مقبول الٰہی اور صاحب کرامات بزرگ تھے۔اپنے دیگر تینوں فرزندوں سے زیادہ پیار کرتے اور اکثر اوقات اپنے پاس رکھا کرتے تھے چنانچہ ان کا قول ہے کہ میں نے ایک شب سحری کے وقت دریا ئےمُوکے کنارے پر تہجد پڑھنے کا ارادہ کیا اوراپنےبیٹےغلام محی الدین کو اپنے ہمراہ اٹھالیا اور دریا کے کنارے کپڑا بچھا کر اس کو لٹادیا اورخودوضو کر کے نوافل میں مشغول ہوگیا،میرے اور اس کے درمیان کچھ فاصلہ تھا اور رات اندھیری تھی کسی قدر دیر کے بعد مجھےیہ خیال گزرا کہ ایسا نہ ہوکہ کوئی درندہ بچے کو اذیت نہ پہنچائے،اپنے پاس لاکر لٹادوں۔جب میں اس کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کو ایک سفیدریش مبارک صورت آدمی اپنی گود میں لیے بیٹھاہے۔میں نے اس کو کوئی بزرگ سمجھ کر کہا کہ آپ اس لڑکے کے حق میں دعا کریں کہ عالم با عمل ہو۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ ازل سے ہی عالم باعمل ہے اور اس سے لوگوں کو بہت فیض حاصل ہوگا۔یہ کہتے ہی وہ آنکھوں سے غائب ہوگئے،سو خدا نے ایسا ہی کیا۔آپ کے ہم عصروں کی روایت ہےکہ آپ حالت صِغر سنی میں لڑکوں کے ساتھ نہ کھیلتے اور اکثر خاموش رہتے اور لڑکوں کو ہدایت کرتے تھے اور آپ کا خوف ورعب احترام ہم عُمربچوں پر رہتا تھا۔(حدائق الحنفیہ:494/علمائے اہل سنت وجماعت لاہور:145)
تحصیلِ علم:چار برس چار ماہ کی عمریعنی 1214ھ میں حافظ حسن صاحب مرحوم کی شاگردی میں آئے۔حافظ حسن صاحب اپنے شاگردوں کوپیٹنےمیں بدنام تھے۔مگر آپ کی ذہانت کاکرشمہ ہےکہ اتنا سخت استاد ایک دن بھی آپ پرہاتھ نہ اٹھا سکا۔بروایت حافظ حسن مشہور ہے کہ میں لڑکوں کے حق میں بڑا جبار تھا مگر انہوں نے مجھ سے کبھی مار نہیں کھائی،یہ لڑکوں میں خاموش بیٹھے رہتے تھے اور مجھ کو خیال ہوتا تھا کہ ان کو سبق یاد نہ ہوا ہوگا مگر جب میں کہتا تھا کہ سبق سناؤ تو یہ فوراً سبق سنادیتے۔(حدائق الحنفیہ:495)
آپ نےتھوڑےعرصےمیں قرآن شریف ختم کرلیا تھا مگر حفظ نہیں کیا تھا لیکن چونکہ آپ بڑے خوش آواز تھے اس لیے جب ماہِ رمضان آیا تو لوگوں نے آپ کے والد ماجد سے درخواست کی کہ اس رمضان میں غلام محی الدین سے قرآن شریف نوافل میں سننا چاہئے۔اس پر آپ سے آپ کے والد نے پوچھا کہ تم قرآن شریف سنا سکو گے؟آپ نے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ ایک پارہ روزدورکرلیاکریں تو میں سنادوں گا پس اس طرح سے آپ نے اسی رمضان میں قرآن شریف حفظ کرلیا اور سنادیا۔آپ سے پوچھا گیا کہ آپ تمام دن میں یاد کیا کرتے تھے؟فرمایا کچھ نہیں صرف وقت ِچاشت تک ایک پارہ حفظ ہوجاتا تھا۔(تذکرہ علمائےاہل سنت وجماعت لاہور:146)
پھر آپ نے علم پڑھنا شروع کیا،صغر سنی میں یہ ذکاوت تھی کہ علمائے پنجاب کہتے تھے کہ اے لڑکے تمہیں پنجاب میں کوئی تعلیم نہیں دے سکے گا ،تم دہلی چلےجاؤ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ اپنے چھوٹے بھائی مولانا احمد الدین بگوی کوساتھ لےکردہلی روانہ ہوئے۔اس وقت احمد الدین کی عمر آٹھ سال تھی اور دسواں پارہ حفظ کرتے تھے۔مگر دہلی پہنچنے تک انہوں نے بھی قرآن حفظ کرلیا پس آپ بارہ برس تک دہلی میں رہے۔اس عرصے میں اگرچہ دونوں بھائیوں نے علم معقول ومنقول متفرق علماء سے پڑھا،مگر علمِ حدیث مولانا شاہ محمداسحاق دہلویسے حاصل کیا اور اس کی سند کےلئےحضرت مولاناشاہ عبد العزیزمحدث دہلوی کے پاس لے گئے،انہوں نے آپ سے علمِ حدیث میں بہت سے سوالات کیے جن کے جواب آپ نے ایسے عمدہ دیے کہ شاہ صاحب نہایت خوش ہوئے اور انہوں نے علمِ حدیث کی سند دےکر دعا فرمائی انشاء اللہ تعالیٰ آپ سے بڑا فیض جاری ہوگا اورنصیحت کی کہ جب تم وطن واپس جاؤ تو ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے لوگوں میں تفرقہ پڑے۔(حدائق الحنفیہ:495/تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت لاہور:147)
بیعت وخلافت:آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میںشیخ الاسلام حضرت شاہ غلام علی دہلوی نقشبندیکےمریدہوئے۔
سیرت وخصائص:جامع المنقول والمعقول،امام العلماءوالفضلاء،رئیس الاصفیاء،خادم حدیثِ مصطفیٰ،وارث علوم ِمجتبیٰ،عالم ِ شریعت،عارفِ طریقت حضرت علامہ مولانا غلام محی الدین بگوی۔آپعالمِ اجل فاضلِ اکمل،فقیہ العصر،محدثِ بےبدل،صاحب کمالات صوری و معنوی تھے۔علم ِ شریعت وطریقت کی تحصیل وتکمیل کرکےآپ اپنےآبائی علاقہ موضع بگہ واپس تشریف لائے۔یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کےوالد گرامی مولانا حافظ نور حیات کاوصال ہوچکاتھا۔سکھوں کےتخت وتاراج سےمسلمانوں کی معاشی اور مذہبی زندگی روبہ زوال تھی۔اسلامی تہذیب کےآ ثار مٹائے جارہےتھے۔مسلمان مایوسی کےعالم میں دل گرفتہ ہوچکےتھے۔ایسےپرفتن ومشکل حالات میں مولانا غلام محی الدین نےمسند ارشاد پرقدم رکھا،اور پورےعزم کےساتھ دین اسلام کی خدمت کرنےلگے۔
آپ کےخلوص وللہیت اورعلمی پختگی نےسارے پنجاب کواپنی طرف متوجہ کرلیا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کےوزیر فقیر عزیز الدین مرحوم موضع بگہ میں میں آئے اورمولانا کی علمی قابلیت سےاتنے متأثر ہوئے کہ لاہور جانےکی تمنا کااظہارکیا۔انہیں یقین تھا کہ ایسا فاضل انسان لاہور میں بیٹھ کرزیادہ خدمتِ دین کرسکتاہے۔آپ لاہور پہنچےاور مسجد بازار حکیماں میں شمعِ علم فروزاں کرنےلگے۔پروانگانِ علم ِدین چاروں سمت سے ٹوٹ پڑےاور یہ سنی عالم،مصطفیٰ ﷺکےعلوم سےسینوں کومنورکرنےلگا،اور کفرکےاندھیروں کواپنے علم کےنورسےروشن کردیا۔
غیر مسلم دامنِ اسلام میں: خلقِ خدا سےحسن سلوک اور علم دین کی اشاعت کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں اچھوت آپ کےہاتھ پر اسلام لائے،حالانکہ اس وقت اسلام میں داخل ہونا توکجا اسلام پرقائم رہنا بھی بڑامشکل کام تھا۔آپ اپنی اخوت،مساوات اور حمیت اسلامی کےعلمی مظہر تھے۔غیرمسلم بھی آپ کےاخلاق وکردارسےمتأثر ہوئے بغیر نہ رہتےتھے۔(تذکرہ علمائےاہل سنت وجماعت لاہور:148)
علمِ حدیث کی اشاعت: حضرت علامہ مولانا غلام محی الدین کی درس گاہ علم حدیث کی تدریس کابہت بڑاادارہ تھا۔پنجاب کی شاید ہی کوئی علمی درس گاہ ہو جس میں اس مکتب حدیث کافیض یافتہ علم دین نہ پڑھا رہاہو۔آپ سےکم وبیش دوہزار اشخاص نےعلم حدیث کی سند حاصل کی۔حضرت علامہ مولانا حافظ ولی اللہ لاہوریآپ کےنامورشاگرد ہیں۔آپنےلاہورکےتیس سالہ قیام میں ہزارہاتشنگان علوم دینیہ کو سیراب کیا۔اس تیس سالہ عرصےمیں آپ نےجس خلوص پامردی اور جانفشانی سےعلمی کام کیا وہ مثالی حیثیت رکھتاہے۔آپ زندگی کےآخری ایام میں علالت کی حالت میں اپنے وطن قصبہ بگہ تشریف لےگئے۔پھر وہیں انتقال ہوا۔آپ کےدو صاحبزادے مولانا غلام محمد بگوی اور مولانا عبدالعزیزبگوی علیہماالرحمہ علمی دنیا میں بڑے مشہورہوئے۔مولانا غلام محمد بگویایک عرصےتک شاہی مسجد لاہورکےخطیب رہے۔مولانا عبدالعزیزبگوی بھیرہ کی مرکزی مسجد کےخطیب رہے۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال بروز پیر30 شوال المکرم1273ھ مطابق 22/جون1857ءہوا۔موضع بگہ،نزد بھیرہ ضلع سرگودھا میں آرام فرماہیں۔
ماخذ ومراجع: حدائق الحنفیہ۔تذکرہ علمائےاہل سنت وجماعت لاہور۔