حضرت شیخ محمد مظہر بن احمد سعیددہلوی رحمۃ اللہ علیہ
محترم، عالم، صالح،محمد مظہر بن احمد سعید بن ابی سعید، عمری، حنفی، دہلوی، مدینۃ الرسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے، آپ کی دہلوی شہر میں ۴ / جمادی الاولیٰ ۱۲۴۸ھ میں ولادت ہوئی، علما ور مشیخت کی گود میں پرورش پائی مولانا حبیب اللہ کے علاوہ دوسرے علماء وقت سے بھی علم حاصل کیا پھر اپنے والد ہی کی صحبت اپنے لئے لازم کر لی۔ اور ان سے ان کے ددا کے مکتوبات ربانی، دو مرتبہ انتہائی غور و خوض اور تدبر کے ساتھ پڑھے۔ اور ان سے علم طریقت حاصل کیا ان سے ہی اجازت لے کر حرمین شریفین کا سفر کای اور حج و زیارت سے فارغ ہوئے۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور اپنے والد کی صحبت میں رہنے لگے۔ ۱۲۷۴ھ میں دوبارہ اپنےو الد کے ساتھ حجاز کا سفر کیا اور مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی۔ پھر اپنے صنوکبیر عبدالرشید (چچا) کے انتقال کے بعد اپنے والد بزرگ کی گدی پر بیٹھے جس سے ان کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، آپ علماء ربانیین میں سے تھے علم معقول و منقول اور تمام فروع و اصول کے جامع تھے ساتھ ہی معارف اور حقائق حکم کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
مختصر جملوں میں جامع حالات:
شیخ مراد بن عبداللہ قزانی نے ذیل کے مختصر جملوں میں آپ کے اچھے حالات بیان کئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ اپنے سالکین کی تربیت میں آپ کا طریقہ ویسا ہی تھا جیسا کہ آپ کے آباد کا تھا اس میں ذرہ برابر نہ کچھ تبدیلی تھی اور نہ تغبیر نہ کسی طرح کی کمی کر کے اور نہ کسی کی زیادتی کر کے۔ اس راستہ میں آپ بالکل درمیانہ رو تھے۔
آپ کی نظر صرف اور صرف اس جملہ پر مبذول تھی سدّدو اور وقاربوا اور ہمیشہ حدیث کے اس جملہ بشروا ولاتنفروا بشارت تو سناؤ مگر منافرت کی بات نہ کرو۔ ہر طالب علم کو آپ جو مناسب سمجھتے مناسب وظیفے اور اذکار کا حکم دیتے تھے، یعنی ان میں سے کسی سے کچھ ایسے بھی ہوتے کہ ان کو پانے کام کا پورا پورا اختیار دے دیا جاتا آپ کی زیادہ تر توجہ علماء اور طلبہ علوم پر ہوتی۔ دنیا میں جہالت کی زیادتی اور قسم قسم کی دنیا میں بدعتیں پھیلتے ہوئے آپ جو کچھ مشاہدہ فرماتے ان کی طرف طالب علم کو بھی توجہ دلاتے، اور ان لوگوں کو زیادتی ذکر کی تکلیف نہیں دیتے کہ اس کی وجہ سے تحصیل علم اور اس کے ذرائع کو چھوڑنا پڑتا۔
باب المبقیع پر مدرسہ کا قیام:
مدینہ منورہ میں ایک مدرسہ عالیہ کی بنیاد رکھی تھی جو باب البقیع پر تین منزلہ تھا جس میں ضرورت کی تمام چیزیں مثلاً: کتب خانہ، پڑھانے کی جگہ، ذکر و نصیحت کے لئے دوستوں اور آنے والوں کے لئے مہمان خانہ، آپ کی ایک کتاب المقامات السعد یہ ہے جس میں فارسی زبان میں باب کے حالات اور مقاماتکے حالات درج تے۔
آپ ۱۳۰۱ھ کے ۱۲ / محرم کی مبارک رات کو وفات پاگئے۔ اور اپنے والد کی قبر کے بغل میں جنّت البقیع میں دفن کئے گئے۔