حضرت فاضل جلیل مولانا مفتی سیف الرحمان قریشی، ہزارہ علیہ الرحمۃ
عمدۃ المدرسین ابوالوفاء مولانا مفتی سیف الرحمان بن علامہ الدہر حضرت علامہ قاضی عبدالسبحان کھلا بٹی رحمہ اللہ (م ۱۲؍شوال/ ۲۰؍مئی ۱۳۷۷ھ/ ۱۹۵۸ء بن مولانا قاضی مظہر جمیل ۱۹۳۷ء میں بمقام کھلا بٹ (ہزارہ) پیدا ہوئے۔ آپ نسباًقریشی علوی میں اور عظیم علمی و روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ تین سال دارالعلوم انجمن خدام الصوفیہ گجرات اور دو سال جامعہ حضرت میاں صاحب شرقپوری رحمہ اللہ، میں اپنے والد ماجد علیہ الرحمۃ سے پڑھتے رہے۔ ایک سال دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور (ہزارہ) اور ایک سال مدرسہ احسن المدارس راولپنڈی میں درسِ نظامی کی تحصیل کے بعد ۱۹۵۷ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ دستار بندی حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ (م۳؍رمضان المبارک) نے فرمائی۔ فراغت کے بعد آپ نے دو سال حضرت محدثِ اعظم مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ سے فیصل آباد میں حدیث پاک کا سماع کیا۔ مولانا عبدالجلیل ٹونکی (تلمیذ مولانا برکات احمد ٹونکی) سے جیومیٹری وغیرہ اوقلیدس تک اسباق پڑھے۔
تدریس کا آغاز آپ نے جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ سے کیا جہاں آپ نے آٹھ ماہ تک پڑھایا۔ پھر ایک سال اپنے گاؤں میں پڑھانے کے بعد ۶۰۔ ۱۹۵۹ء میں جامعہ نعیمیہ لاہور (اس وقت چوک وال گراں میں تھا) میں مسندِ تدریس پر فائز ہوئے۔ تین سال دارالعلوم ربانیہ مجددیہ جہلم میں پڑھانے کے بعد مارچ ۱۹۶۵ء میں قصبہ پنیاں نزد ہری پور (ہزارہ) میں فرائضِ خطابت انجام دینے شروع کیے جہاں میٹرک اور ایف اے کے طلباء آپ سے ترجمہ قرآن پاک، اسباق حدیث اور ریاضی میں استفادہ کرتے ہیں۔
آپ نے ۱۹۷۷ء میں حج و زیارت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا۔ اس مبارک سفر میں آپ بطور امیرِ اعلیٰ تشریف لے گئے۔ دو ماہ مکہ مکرمہ اور چودہ دن مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔ جہاز کے کپتان نے آپ کو اعلیٰ کارکردگی پر سرٹیفکیٹ بھی دیا۔
حضرت مفتی صاحب سلسلۂ قادریہ سہروردیہ میں حضرت قاضی سلطان محمود صاحب (اعوان شریف) سے روحانی نسبت رکھتے ہیں۔ آپ کے آباؤ اجداد کی روحانی نسبت بھی اسی درگاہ سے ہے۔
تدریس و تقریر کے علاوہ فنِ تحریر میں بھی آپ مہارتِ تامہ رکھتے ہیں، آپ نے مندرجہ ذیل علمی و تحقیقی کتب و رسائل تحریر فرمائے: ۱۔ انوارالسبحان فی مباحث القرآن،۲۔شرح ہدایۃ النحو (اردو) ۳۔جلاء العینین بتوسل تقبیل الابہامین (انگوٹھے چومنے کے فوائد) ۴۔رسالہ بر نعرۂ رسالت ۵۔انوارالشفاء فی حکم جواز النداء ۶۔ شرح ایسا غوجی (منطق) ۷۔جواہر الصرف شرح صرف بہائی ۸۔رسالہ فی بحث العلم (منطق) ۹۔رسالہ در مسائل تجہیز و تکفین میت، ۱۰۔ انوارالحدیث ۱۱۔ درسِ حدیث، ۱۲ فتاویٰ (۳حصے)
یہ تمام کتابیں تا حال غیر مطبوعہ ہیں۔
آپ سے کثیر التعداد طلباء نے اکتسابِ فیض کیا جن میں سے چند قابلِ ذکر تلامذہ یہ ہیں:
۱۔ مولانا محمد فرید ہزاروی، صدر مدرس جامعہ فاروقیہ گوجرانوالہ (راقم کے استاذِ محترم)
۲۔ مولانا محمد شریف ہزاروی، صدر مدرس دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ (راقم کے استاذِ محترم)
۳۔ مولانا گل رحمان ہزاروی، مدرس جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی
۴۔ مولانا احمد یار، مدرس جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ
۵۔ مولانا عبدالغفور الوری، مہتمم فیاض العلوم، رائے ونڈ
۶۔ مولانا گل حیدر شاہ، گجرات
[جملہ کوائف فاضل نوجوان مولانا عبدالستار نظامی نے ۱۰؍جولائی ۱۹۷۸ء کو موضع باڑیاں تحصیل مری میں حضرت مفتی صاحب سے براہِ راست حاصل کیے، مرتب ان دونوں حضرات کا ممنون ہے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)