محمد عبداللہ حافظ بھر چونڈوی علیہ الرحمۃ
حافظ صاحب ۱۲۸۳ھ میں پیدا ہوئے، حضرت حافظ محمدصدیق بھر چونڈوی قدس سرہ کے خلیفہ اور جانشین تھے، اور رشتہ میں ان کے بھتیجے تھے سجادہ نشینی کے وقت عمر کل پچیس برس تھی، بیس سال کی عمر میں درس نظامی سے فارغ ہوئے اور پانچ سال شیخ کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک طے کیں ، اس نو عمری میں آپ کے والد ماجد کا نام قاضی اللہ بخش تھا، حضرت حافظ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی تھے آپ نے تجردکی زندگی تھی اس لیے بھائی کی اولاد کو بالکل اپنی اولاد کی طرح جانا، حافظ صاحب قدس سرہ نے اپنے اس ہونہار بھتیجے کو اپنے ایک مرید مولوی محمد اسحاق کے پاس کوٹ سبزل میں بٹھا دیا، کوٹ سبزل بھر چونڈی سے کوئی پچس میل کے فاصلہ پر حدود بہاولپور میں ہے، جب چھٹیاں ہوتیں تو حافظ محمد عبداللہ صاحب پاپیادہ بھر چونڈی آتے تھے، فاصلہ زیادہ تھا اس لیے آپ کو ایک گھوڑی خرید دی گئی، حضرت حافظ صاحب قدس سرہ کو جب پتہ چلا تو گھوڑی فروخت کر کے اس کی قیمت فقراء میں خیرات کر دی اور فرمایا ہمارے فقراء نان شبینہ تک کو ترستے ہیں اور تم صاحبزادگی کے مزے لوٹتے ہو۔
حضرت حافظ صاحب نے بذات خوداہتمام کر کے آپ کی شادی ایک نیک گھر انے میں کرائی سسرال پوری حفاظ کرام کی تھی، بہو بھی قرآن کریم کی حافظہ تھی، اس قران السعدین سے حضرت خواجہ عبدالرحمٰن بھر چونڈوی جیسی عارف باللہ شخصیت پیدا ہوتو کیا تعجب کی بات ہے؟
ایں سلسلہ از طلائے ناب است
این خانہ تمام آفتاب است
کہتے ہیں کہ آپ جب ذکر الٰہی کرتے تو انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے ، آپ کی بزم میں آہ فغاں سے حشر کا ساسماں بندھ جاتا تھا۔
گریہ وزاری عجب سرمایہ است
تابہ شہر دل قوی ترپایہ است
جب آپ نماز ادا فرمانے کے لیے باہر تشریف لاتے تو کئی آدمی بے ہوش ہوجاتے اور جن زبانوں پر کبھی نام خدا نہیں آیا تھا ان کی زبان بے اختیار ذکر الٰہی سے ترہوجاتی تھی آپ نے اپنی پوری جماعت کے دلوں کو عشق الٰہی کی سوزش سے بہرہ ور کرایا تھا، مسجد کے ہر گوشہ سے سسکیوں کی آوازیں اٹھتی تھیں اور مضراب دل سے ٹکراتی رہتی تھیں، خلوت نیم شبی میں یا تو قرآن کے پڑھنے کی سحرانگیز آوازیں آتی تھیں یا پھر نالہ ہائے ، ہائے ہو، نماز عصر کے بعد اور تہجد کے بعد سندھ کے باکمال شاعروں کی کافیاں پڑھی جاتی تھیں، نماز عصر کے بعد اور تہجد کے بعد سندھ کے باکمال شاعروں کی کافیاں پڑھی جاتی تھیں، فقیر فتح محمد نہایت سوزو گداز کے ساتھ پڑھتا تھا، حضرت کے پسندیدہ شعراء یہ تھے، حضرت سچل سرمست فقیر خیر محمد دریا خان، مخدوم محمد اشرف سجادہ نشین کا مارد، عبداللطیف بھٹائی، بھلے شاہ صاحب، مولانا جامی ، امیر خسر و ،مولانا ورم، شیرازی ، شمس تبریزی اور لال شہباز قلندر ، اشعار اور کافیاں سنتے وقت رقص و وجد کی کیفیات تو آپ پر طاری نہ ہوتی تھیں، لیکن آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آنسو ڈھلک آتے تھے،مگر فقراء ذکر کرتے کرتے بے ہوش ہوجاتے، ایک فقیر اپنے گھر میں بیٹھا ذکر کر رہا تھا عین ذکر میں سمجھیں کہ اس پر آسیب آگیا ہے، کہنے لگیں، کلمہ پڑھو، فقیر کی بیوی گھبرا کر کہنے لگی، ہائے ہائے کلمہ کا نام نہ لو اسی کا تومارا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجد و حال سماع و سرود کا محتاج نہیں ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
ومن یک وجدہ وجدا صحیحا |
فلم یحتج الٰی قول المغنی |
لہ من ذاتہ طرب قدیم |
وسکر دائم من غیر دن |
آپ انتہائی درجہ متبع شرع تھے، سماع کے سخت مخالف تھے، حتٰی کہ باورچی جو عام طور پر کفگیر و دیگ گھما مارتا ہے اس کو بھی ناپسند فرماتے اپنی جماعت کے افراد کے ساتھ خصوصی طور پر شفقت کا برتاو کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا کہ حضور عرس شریف کی تقریب نزدیک ہے کدال اور کلہاڑیاں جمع کروالیں، عرس میں شرکت کوبہت سے مریدین آئیں گے ان سے فلاں فلاں کام کرالیں گے، آپ نے فرمایا شرم کرو طالبان مولیٰ طلب مولیٰ میں یہ سفر اختیار کرتے ہیں ذکر الٰہی کے لیے جمع ہوتے ہیں تمہاری نیت ایسی ہے؟
(عباد الرحمٰن، ۱۰۴)
بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور ان نصاریٰ کو اپنے وطن عزیز سے بہ ہر طور نکال دینا چاہتے تھے اس سلسلہ میں مختلف طریقے اختیار کیے ہوئے تھے سر زمین سندھ میں کئی تحریکیں زوروں پر تھیں، دیوبندی حضرات نے سندھ کو دارالحرب قرار دیکر وہاں سے ہجرت کر کے جانے کو فرض قرار دیا تھا جبکہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان اور سندھ کے جلیل القدر عالم مخدوم سید محسن علی شاہ صاحب ساکن ٹھٹھہ نے سندھ کو دارالاسلام قرار دیا تھا، اسی بناء پر حضرت عبداللہ بھر چونڈوی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خانقاہ سے ہی انگریز کے خلاف جہاد کریں گے اور وطن کو نہیں چھوڑیں گے درحقیقت جن لوگوں نے سندھ وغیرہ کو دارالحرب قرار دیا وہ ہندوؤں کے دھوکہ اور مکر کا شکار ہوگئے، یہ کتنی عجیب بات تھی کہ سندھ کو خوددار الحرب قرار دیکر اس پر سے مسلمانوں کا حق ختم کر دیا جائے۔ آپ وصال کے وقت حضرت امیر خسرو رحمہ اللہ کے اس شعر کو بار بار دہراتے تھے۔
شاد باش اے دل کہ فردا بر سر بازار عشق
وعدہ قتل است اگر چہ وعدہ دیدار نیست
منگل کے دن رجب کی پچیس تاریخ بوقت عشاء ۱۳۴۶ھ کو آپ کا وصال ہوا، مولوی احمد صاحب سجادہ نشین خان گڑھ شریف نے تاریخ وصال میں یہ مصرعہ کہا۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )