حضرت محمد ہاشم علامہ مخدوم ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ
و ۱۱۰۴ھ۔ف ۱۱۷۴ھ
عالم ، عارف ، قاری، حاجی صوفی علامہ ، جامع شریعت و طریقت حضرت مخدومت محمد ہاشم بن عبدالغفور بن محمد قاسم بن خیر الدین ٹھٹھوی۔
حضرت مخدوم کے والد محترم بٹھورا میں رہتے تھے۔ جہاں ۱۰/ربیع الاول /سن ۱۱۰۴ھ میں حضرت مخدوم صاحب تولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کی تاریخ اس عربی جملہ سے نکلتی ہے۔
‘‘انبت اللہ نباتا حسنا’’ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی صرف چھ ماہ میں قرآن حکیم ختم کیا اور اس کے علاوہ بھی کچھ کتابیں پڑھیں باقی علوم کی تکمیل ٹھٹھہ کے مشہور عالم حضرت مخدوم محمد سعید اور محمد ضیاء الدین کے پاس کی۔ علم حدیث آپ نے مخدوم محمد معین ٹھٹھوی سے حاصل کیا۔ تمام علوم و فنون صرف ۹ سال کے مختصر عرصہ میں حاصل کر لیے۔ فراغت کے بعد ابتداء میں آپ نے اپنے گاؤں بہرام پور میں دارالعلوم قائم کیا۔ بعض وجوہ کی بناء پر وہاں سے ہجرت فرما کر مستقل ٹھٹھہ میں سکونت اختیار کرلی۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ ص ۲۵۴ جلد دوم)
مخدوم علی الرحمۃ ۱۱۳۵ھ میں حج کے ارادے سے حرمین طیبین روانہ ہوگئے۔ مکہ اور مدینہ ‘‘زاد ھما اللہ شرفاو عظما’’ کے بڑے بڑے علماء سے حدیث و تصو ف کی اجازت و اسناد حاصل کیں جن علماء سے آپ نے اجازت حاصل کی ان میں سے حضرت شیخ عبدالقادر صدیقی مالکی ، شیخ عبد بن علی مصری، شیخ ابو طاہر مدنی اور شیخ عبد علی بن عبدالملک الدرادی جیسے اکابر فی مسانید شیخ عبدالقادر) میں کیا ہے۔ جمعرات ۹ رجب المرجب ۱۱۳۶ھ میں سرکار دو عالم نور مجسم ﷺ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے۔ اس بات کا تذکرہ آپ نے اپنی متعدد کتب میں کیاہے۔ حج سے واپسی کے بعد سورت ہند، کے مشہور عالم عارف اور صوفی حضرت سید سعد اللہ سورتی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے حضرت نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا ۔ اس سعادت کے حصول کے بعد ٹھٹھہ تشریف لائے اور حدیث کے درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تصنیف فرما کر عالم اسلام پر بالعموم اور اہل سندھ پر بالخصوص ناقابل فراموش احسان فرمایا۔ بعض اہم کتابیں درجہ ذیل ہیں۔
ادلۃ القبول فی حضرت الرسول، اس میں وسیلے کا مفصل بیان ہے بعد المکتوبتہ فرائض نماز کے بعد دعا مانگی جاسکتی ہے بلا کراہت اس کتاب کو حضرت مولانا مفتی جسٹس سید شجاعت علی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیقات جدیدہ کے ساتھ ہی حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔
تنقیح الکرام فی النھی عن قرات الفاتحۃ خلف الامام اس کتاب میں امام کے پیچھے قرات نہ پڑھنے پر تفصیلا بحث کی گئی۔ فتح الکلام فی کیفیتہ اسقاط الصلوۃ والصیاماس میں میت اسقاط فرائض اور ایصال ثواب کے جواز پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی گئی ہے اور ان کے علاوہ بے شمار مضامین پر کتابیں موجود ہیں۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمۃ کے دور میں شرعی احکام و قوانین نے بڑا رواج پایا اور آپ کا حکم مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں پر بھی چلتا تھا۔ آپ کے ہاتھ پر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ سندھ کے عطیم النظیر عالم دین بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ گیارہویں صدی ہجری کے مجدد تھے تو بے جانہ ہوگا ذکر قلبی جاری رکھتے ہوئے۷۰ سال کی عمر میں ۶ رجب المرجب ۱۱۷۴ھ اس دار فانی کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف کوچ کیا آپ کی وفات حسرت آیات پر ٹھٹھہ کے شعراء نے بہت سے مرثیے اور قطعات تاریخ لکھے ہیں چند قطعات تحریرکیے جاتے ہیں۔
بلند آواز گو سال وصالش
سال فوتش زخر جستم بگفت
بھشش داد ایزد منزل جاہ
درجوار مصطفیٰ ماویٰ یافت
۱۱۷۴ھ
گفت تاریخ ھاتفم باآھ!
جعل اللہ جنۃ مثواہ
۱۱۷۴ھ
آپکا مزار مکلی پر واقع ہے اور مرجع خلائق ہے۔
(سندھ جا اسلامی درسگاہ ص ۲۳۲، تذکرہ مشاہیر جلد دوم ص ۲۵۵، ۲۵۸، ۲۵۹، ۲۶۱، ۲۶۴)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )