حضرت محمد عظیم حسن اخری برخیا علیہ الرحمۃ
و ۱۸۹۸ء ف ۱۳۹۹ھ /۱۹۷۹ء
ابدال حق، سلسلہ اویسیہ عظیمیہ کے بانی مبانی اور رسالہ روحانی دائجسٹ کے روح رواں حضرت حسن اخری سیدمحمد عظیم برخیا المعروف حضور قلند بابا اولیاء رحمہ اللہ ۔ آپ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں اور آپ کا خاندانی سلسہ حضرت سیدنا امام حسن عسکری سے جاملتاہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء رحمہ اللہ ۱۸۹۸ء میں قصبہ ‘‘خورجہ’’ ضلع بلند شہر ، یوپی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔
قلندر بابا اولیاء نے قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی، ہائی اسکول تک بلند شہرمیں پڑھا اور پھر انٹر (INTER) میں داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔ آپ کی روحانی تربیت مولانا کابلی اور آپ کے نانا جان حضرت بابا تاج الدین ناگپوری علیہ الرحمۃ نے کی۔نو سال تک اپنے نانا کی خدمت میں رہ کر تمام اسرار و موز حاصل کر لیے اللہ نے آپ کو علم لدنی سے نوازا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد اہل و عیال اور والد اور بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی میں تشریف لے آئے کراچی میں لی مارکیٹ کے محلہ میں ایک مکان کرائے پر لیا اور اسی میں رہتے رہے۔
۱۹۵۶ء میں سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ قطب ارشاد حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردی کراچی تشریف لائے گرانڈ ہوٹل میکلو روڈ میں ا ن کے مریدہوئے اور ایک ہی لحظ میں تمام منازل طے ہوگئے۔
حضور قلندر بابا اولیاء فطرتاً ذہین حلیم الطبع، مخلص ، شاعر، فلاسفر، وسیع المعلومات، خلیق، سخن سنج اور پر مزاح بزرگ تھے۔ آپ کے مزاج میں احتیاط بہت زیادہ تھی۔ طبعاً کرامات سے گریز فرماتے تھے لیکن کبھی غیر اختیاری طور پر کرامت کا صدرور ہوجاتا تھا۔ چناں چہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بابا کی خدمت میں ایک گونگی بہری لڑکی کو پیش کیا گیا بابا جی نے لڑکی کو مخاطب کر کے فرمایا ‘‘ تیرا نام کیا ہے’’؟ لڑکی خاموش رہی دوسری دفعہ آپ نے پھر فرمایا ‘‘بتا تیرانام کیا ہے’’؟ لڑکی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی تیسری بار انہیں جلال آگیا۔ سخت غصہ کے عالم میں مارنے کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر فرمایا ‘‘بتا ، تیرا نام کیا ہے’’؟ لڑکی نے فوراً بولنا شروع کردیا تقریباً لڑکی کی عمر سولہ سترہ برس کی تھی۔
مولانا خواجہ شمس الدین عظیمی سے روایت ہے کہ ایک دن میں نے داڑھی کے متعلق دریافت کیا کہ ازروئے قرآن و حدیث اس کی حد کتنی ہے اور سیدنا حضور علیہ السلام کی ریش مبارک کسی تھی۔ اور صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین ، جن سے بڑھ کر متبع شریعت کوئی نہیں ہوسکتا ۔ ان کی داڑھیاں کتنی لبمی تھیں ؟ ارشاد فرمایا: ‘‘قرآن کریم میں داڑھی کی لمبائی اور چوڑائی کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ داڑھی سے متعلق حدیث بھی صرف ایک ہے باقی سب موضوع ہیں اس کے بعد فرمایا : ‘‘ہماری دربار رسالت میں ہفتہ میں دو بار حاضری ہوتی ہے۔ وہاں خلفائے راشدین بھی موجود ہوتے ہیں ہم جو وہاں دیکھتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ریش انوار کے موئے مبارک گھونگریالے، پیچیدہ، لچھے دار ہیں اور جسم اطہر پر ایک انگل کے قریب نظر آتے ہیں اور بڑے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی داڑھی خشخشی ہے۔ حضرت عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہما کی داڑھیاں اس سے بڑی ہیں اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی داڑھی تو چڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔
حضرت قلند بابا اولیاء رحمۃاللہ کو تصنیف و تالیف سے بھی دلچسپی رہتی تھی۔ آپ کی رباعیات قلند بابا اولیاء (۱) لوح و قلم (۲) مشہور تصانیف ہیں۔
۲۷/ صفر/ ۱۳۹۹ھ ۔۲۷/ جنوری/۱۹۷۹ء بروز ہفتہ بوقت ا بج کر ۱۰ منٹ، جب کہ شب بیدار، خدا رسیدہ بندے اپنے اللہ کے حضور حاضری دیتے ہیں، حضور قلند بابا اولیاء مستقل حضوری میں تشریف لے گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جسد مبارک عظیمیہ ٹرسٹ فاونڈیشن کے شمالی حصہ،نارتھ ناظم آباد کراچی میں محواستراحت ہے۔ آپ کے روحانی جانشین حضرت مولانا خواجہ شمس الدین عظیمی ہیں۔
آپ کی تاریخ وفات ذیل کی آیت او فقرہ سے نکلتی ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )