حضرت اخی محمد ؑدہقانی علیہ الرحمۃ
شیخ نے فرمایا ہے کہ چلہ میں جمعرات کی شب ۲۹رات کو میں نے عالم غیب میں یہ دیکھا ،کہ مسافروں کی ایک جماعت آئی ہے۔ان میں ایک ایسا جوان ہے کہ پروردگار کی اس کی طرف نظر عنایت ہے۔اس کو میرے حوالے کردیا ہے۔جب میں ہوش میں آیا تو میں نے خادم سے کہا کہ میرے باہر آنے سے پہلے کسی مسافر کو باہر جانے کی اجازت نہ دیجؤ۔اتفاقاً اسی وقت مسافروں کی ایک جماعت آئی۔میں نے کہا کہ ، کل جمعہ کا دن ہے میرا چلہ پورا ہوچکا ہوگا۔تو جمعہ مسجد میں جہاں بیٹھا ہوں گا ان سب کو لانا تاکہ ان سب کو دیکھوں۔جب میں جمعہ کے دن مسجد میں گیا۔مسافر درویش آئے،اور سلام کہا۔میں نے ہر چند نظر کی جس کو میں نےدیکھا تھا۔وہ ان میں نہ تھا۔میں نے کاہ ، شاید یہ اور لوگ ہوں گے ہم سب نے نماز پڑھی اور خانقاہ میں آگئے۔خادم نے کہا ان درویشوں میں سے ایک شخص ہے جو ان کی خدمت میں مشغول ہے۔شاید ان کے اسباب کے پاس رہا ہے۔اور مسجد میں نہیں آیا ۔وہ درخواست کرتا ہے کہ آپ کی زیارت کرے۔میں نے کہا،بہت اچھا۔جب وہ شخص دور سے میں نے اس کو دیکھا،اور پہچان لیا کہ وہی ہے آیا اور سلام کہا۔ایک گھڑی بیٹھا اور باہر چل دیا۔میں نے خادم کوطلب کیا ۔اور کہا، جا اس جوان سے جو چلا گیا ہے کہہ دے کہ تمہیں مناسب ہے کہ چند دن ہمارے پاس ٹھہرے۔اس جماعت سے علیحدہ رہے مجھے تم سے کچھ کام ہے جب خاد م باہر گیا۔اس کو دیکھا کہ وہ واپس آیا تھا،اور کھڑا ہوا تھا۔خادم نے اس سے پوچھا کہ کیا حال ہے۔کہا میں چاہتا ہوں کہ شیخ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ مجھ کو قبول کرلیں،اور یہی درویشوں کی خدمت میں مشغول رہوں۔خادم نے کہا،شیخ نے مجھ کو تمہاری طرف ہی اس مطلب کے لیے بھیجا ہے۔اس کو لایا مسافر چل دئیے۔اور اس کو میں نے خدمت میں مشغول کردیا۔ اس نے ایسی خدمت کی کہ جو آدمی سے اس بہتر نہیں ہو سکتی۔ تین سال تک ذکر کرتا رہا۔اس کے بعد چند خلوتیں بیٹھا تو اس کو اچھے حالات معلوم ہونے لگے۔ایک دن ہم سفر میں تھے۔وہ صفہ میں بیٹھا ہوا تھا۔جہاں میں تھا۔اس کے حال پر میری نگاہ جا پڑی۔میں نے دیکھا کہ اس پر عالی واردات نازل ہوتے ہیں۔اور اس کو عجیب حال کشف ہوتا ہے۔اسی وقت میں اٹھا اور وہاں گیا۔جہاں وہ تھا۔وہ مغلوب تھا اور اس حال میں مست ہو رہا تھا۔میں نے اس کو آواز دی اور کہا کہ کیا حال ہےاور کیا دیکھا،بیان کرو۔اس نے کہا میں کہہ نہیں سکتا۔میں نے کہا،بیہودہ باتیں نہ کر،اور غصہ سے کہا ،کہ سچ کہو۔
کہا بے شک مقام تو عالی تھا۔لیکن جب میں نے دیکھا کہ اس میں غرو ر پیدا ہوتا ہے۔اس لیے میں کہا ہوں کہ یہ کچھ نہیں۔میں نے اس کو دور کر دیا۔بارے اس مقام میں اس نے کچھ پیدا کر لیا۔اور مدت تک اس کے دماغ سے یہ خیال نہ جاتا تھا۔یہاں تک کہ اس کے بعدصمدی تجلی سے روشن ہوا۔وہ ایک ایسا مقام ہے کہ وہاں پر سالک کی سب کی طرف حاجت جاتی رہتی ہے۔جب اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا تو غرور پیدا ہوا،اور اپنے آپ سے کہنے لگا کہ نہ کھانا خدا کی صفت ہے۔سو مجھ کو حاصل ہے۔اس کے باطن میں خدائی دعوے آنے لگا کھانا چھوڑ دیا۔میں ہر چند اس کو لکڑیاں مارتا اور لکڑی اس کے منہ میں دیتا۔شربت اس کے منہ میں گراتا۔مگر وہ پھر باہر نکال دیتاتھا۔اس کے حلق میں نہ جاتا تھا۔میں نے چھوڑ دیا کہ شاید اپنے خوشی سے کھائےتاہم کچھ نہ کھایا۔چھ سال اس پر گزر گئے۔وہ خدمت برابر کرتا تھا۔اس کی ایک سعادت یہ تھی کہ اپنے آپ کو مجھ سے کبھی بے نیاز نہ سمجھتا تھا۔اگر یہ نہ ہوتا تو وہ اسی گھڑی میں ہلاک ہوجاتا۔مجھ کو ۳۷ سال ہوگئے کہ شیخ کے اشارہ سے ارشاد خلق میں مشغول ہوں۔اس عرصہ میں بہت سے طالبین کو دیکھا۔لیکن ایسا مرد کہ یہ محمد ہے۔جس کو دنیا اور اپنے لذت کی نفس سے کچھ بھی میلان نہیں ہے،اور کوئی نہیں دیکھتا ۲۵ سال ہوگئےکہ وہ درویشوں میں ہے۔اس کا بھائی بھی خادم ہے اور خادم بھی ہیں۔جو اس سے پہلے کے ہیں۔لیکن کسی نے اس کے منہ سے نہ سنا ہوگا کہ مجھے یہ چیز چاہیےخواہ کھانا ہو یا کپڑا،اور وہ چیز جو نفس کے مزہ کے متعلق ہے۔کبھی اس کی زبان نہیں سنی گئی۔باوجود یکہ کئی بیماریاں کاٹی ہیں۔کبھی کسی نے اس کو سوتے نہیں دیکھا،اور کسی سے کچھ نہیں کہا۔کسی شخص نے کوئی دوائی طلب نہیں کی۔خلاصہ یہ کہ چھ سال تک اس نہ کھانے کے مقام میں رہا۔اس کے بعد مجھے کعبہ شریف کو جاتا تھا۔اس کو میں نے اپنے ساتھ لیا۔میرا ارادہ یہ تھا کہ ایک جماعت اس بات کا تعجب اور خدا کی قدرت میں شک کرتی تھی۔ان و یہ بات نقصان دیتی تھی،وہ راستہ میں اس کو دیکھ لیں۔اور یقین کرلیں کہ یہ کچھ نہیں کھاتا،اور وہ شبہ جاتا رہے۔جب ہم چلے تو اس جماعت کا شک جاتا رہاجب ہم مدینہ شریف پہنچے تو میں نے اس کو کہا کہ دیکھ اگر رسولﷺ کی امت ہے،اور میرا مرید ہے تو چاہیے کہ وہ کام کرو جو کہ رسول ﷺ نے کیا ہے،اور میں کرتا ہوں۔ورنہ اٹھ اور چلا جا،کہ اس زیادہ میرے ساتھ تم نہیں رہ سکو گے۔علی دوسی ؒ حاضر تھے۔انہوں نے اس کے منہ میں لقمہ ڈالا۔میں نے تین لقمہ معین کردئیے کہ ایک دن میں کھا لیا کرے۔مکہ تک اس کے منہ میں۔مکہ میں میں نے کہا جس طرح اور درویش کھاتے ہیں۔تم بھی کھاؤ۔پھر اس بھنور سے اس نے خلاصی پائی۔
(نفحاتُ الاُنس)