حضرت مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری، سنجھورو (سانگھڑ)
ابوالحسان مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری بن حکیم اللہ بخش قریشی ۶؍رمضان المبارک ۱۳۴۰ھ/ ۳؍مئی ۱۹۲۲ء میں بمقام شاہ پور جاجن، تحصیل بٹالہ ضلع گورو اسپور (بھارت) پیدا ہوئے۔
آپ کے نانا حاجی کریم بخش علیہ الرحمۃ نہایت متقی، عابد و زاہد تھے۔
صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شب بیدار تہجد گزار تھے۔ تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر و فکر آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ قصبہ شاہپور جاجن میں آپ نے پکی مسجد تعمیر کروائی اور اپنی ذاتی رقم سے تمام ضروریاتِ مسجد کا اہتمام کیا۔ مسلمانوں کو نماز کے مسائل سکھا کر نماز پڑھنے کا پابند بنایا۔ بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے کے علاوہ دینیات کی تعلیم بھی دیتے اور حاجت مندوں، یتیموں اور بیواؤں کی حاجت برآری میں کوشاں رہتے۔
تعلیم و تربیت:
مولانا حکیم محمد رمضان علی قادری نے فارسی میں گلستان، بوستان اور عربی کی تمام کتب درسِ نظامی مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم محلہ کھڈہ کراچی میں پڑھیں۔
۱۹۳۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فارسی کا امتحان ’’منشی‘‘ پاس کیا۔
دورۂ حدیث محدثِ اعظم حضرت مولانا محمد سردار احمد صاحب رحمہ اللہ سے جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد میں پڑھ کر سندِ حدیث اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔
علمِ طب کی ابتدائی کتب مولوی محمد صادق مہتمم مدرسہ عربیہ مظہرالعلوم کراچی سے پڑھیں اور پھر اپنے والد ماجد سے بقیہ کتبِ طب پڑھنے کے ساتھ عملی تربیت بھی حاصل کی۔ سندِ طب ’’ممتاز الاطباء‘‘ طبیہ کالج طبِ جدید شاہدرہ (لاہور) سے حاصل کی۔
بیعت:
۱۹۳۷ء میں آپ نے حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ثانی علیہ الرحمۃ (علی پور سیداں سیالکوٹ) کے دستِ حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر ان کے وصال پر حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد صاحب رحمہ اللہ اور پھر پیر طریقت حضرت فضل الٰہی صاحب (چک نمبر ۶۶ ج۔ ب دہاندرہ، فیصل آباد) سے تجدیدِ بیعت کی، موخر الذکر نے آپ کو ۱۹۷۳ء میں خلافت سے نوازتے ہوئے بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی۔
دینی و ملی خدمات:
آپ کے شب و روز تبلیغِ دین اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف قلمی جہاد میں گزرتے ہیں۔ اگست ۱۹۳۶ء سے اگست ۱۹۴۲ء تک چھ سال کا عرصہ اپنے آبائی شاہپور جاجن میں امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور پھر ۱۹۵۶ء سے تاحال جامع مسجد غوثیہ سنجھور و ضلع سانگھر میں امام و خطیب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قصبہ شاہپور ضلع گورداسپور میں باوجود یکہ سکھوں اور ہندوؤں کا زور تھا۔ آپ نے پرائمری مسلم لیگ قائم کی جس کا نام مصلحتاً ’’انجمن تنویر الاسلام‘‘ رکھا اور نیشنل گارڈ قائم کرکے اس کا نام ’’غلامانِ رسول‘‘ رکھا۔ آپ جمعہ کے خطبات کے علاوہ پبلک جلسوں میں مسلم لیگی امیدواروں کے حق میں تقاریر کرتے رہے، چنانچہ ان سرگرمیوں کی بنا پر سکھوں اور ہندوؤں نے آپ کو ’’فسادی ملا‘‘ کے نام سے پکارا اور آپ کے قتل کے لیے مبلغ پانچ ہزار روپے مقرر کیے۔
تحریکِ ختم نبوت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ جمعہ کے اجتماعات میں ختمِ نبوت کے موضوع پر تقاریر کے ذریعے عوام کو قادیانیوں کی حقیقت اور عزائم سے روشناس کراتے رہے اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے قراردادیں پاس کرکے حکومت کو بھیجتے رہے۔
جب پاکستان میں بعض لوگوں نے سوشلزم کا فتنہ کھڑا کیا، تو آپ نے اسی وقت تقاریر، اخبارات میں بیانات اور پمفلٹوں کے ذریعے سوشلزم کے خلاف اور نظام مصطفےٰ کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کردی۔
۹؍اکتوبر ۱۹۶۹ء کو شہر میں تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں نے سوشلزم کے مقابلے کے لیے جمعیۃ مجاہدینِ اسلام کے نام سے ایک محاذ قائم کیا، جس کی صدارت کے لیے آپ کو منتخب کیا گیا۔ اس سلسلے میں آپ نے مختلف عنوانات سے پمفلٹ چھپواکر نہ صرف عوام میں تقسیم کیے، بلکہ تمام وزراء، ہوم سیکرٹریوں، سپریم کوٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں، وکلاء اور بار کونسلوں کے عہدیداروں، سیاسی لیڈروں اور علماء و مشائخ کے نام ارسال کیے۔ ان پمفلٹوں کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘
(اس پمفلٹ میں براہ راست صدرِ پاکستان کو مخاطب کرکے سوشلسٹ عناصر کی سرکوبی اور نظام مصطفےٰ کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا)
۲۔ جناب میر رسول بخش تالپور سے ایک سوال اور پاکستانی عوام کے لیے لمحۂ فکریہ
۳۔ پاکستان میں اسلام نظام کے قیام کے لیے اسلامی کی علمبردار جماعتوں کا اتحاد ضروری ہے۔
۴۔ مشائخ و علماء پاکستان کی خدمت میں درد مندانہ اپیل۔ ’’صورِ اسرافیل‘‘
۵۔ حکومتِ پاکستان اور لیڈرانِ ملک سے اہم سوال۔
مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو برسرِ اقتدار آیا، تو آپ نے ایک تحریک چلائی، جس کے ذریعے ملک میں عملاً اسلام کے نفاذ، مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بند کردیے، مارشل لاء کے خاتمے اور بھارت سے پاکستانی جنگی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا اور ان مطالبات پر مشتمل ایک پرچہ چھپواکر ملک بھر کی اہم شخصیتوں کو بھیجا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا گیا۔
۷؍مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں بھٹو حکومت کی زبردست دھاندلی کے خلاف جب ملک میں تحریک چلی تو اس دوران آپ کو قومی اتحاد سنجھورو (سانگھڑ) کا قائم مقام جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا، چنانچہ اس وقت کے وزیرِ بلدیات جام صادق علی کی ہدایت پر پولیس نے آپ کے خلاف فرضی کیس بناکر ڈی پی آر کے تحت گرفتار کرلیا اور پھر جب حکومت اور قومی اتحاد کے مابین مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ طے پایا، تو ۴؍جون ۱۹۷۷ء کو سپیشل ٹریبونل کراچی نے آپ کو رہا کردیا۔ آپ قائدِ اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی مدظلہ کی زیر قیادت جمعیت علماء پاکستان کے منشور کے مطابق ملک میں نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر کوشاں رہتے ہیں۔
تحریرات:
حضرت مولانا حکیم محمد رمضان کو اللہ تعالیٰ نے گوناگوں صفات کا مالک بنایا ہے، چنانچہ سیاسی میدان میں نظامِ مصطفےٰ کے نفاذ کی خاطر جدوجہد کے ساتھ ساتھ آپ مقامِ مصطفےٰ کے تحفظ کی خاطر اپنی زبان اور قلم کو مصروف رکھنا عین ایمان بلکہ جانِ ایمان سمجھتے ہیں۔ اسی بناء پر آپ نے مسلکِ اہل سنت کی صداقت اور گستاخانِ رسول علیہ السلام کے خود ساختہ اور بغض و عداوت پر مبنی عقائد کے رد میں چند کتب بھی تحریر فرمائیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ تنویر الایمان بوسیلۃ اولیاءالرحمٰن ۲۴۸ صفحات (اولیاء کرام سے توسل کا جواز)
۲۔ تنویرالبرہان ۱۲۲ صفحات (غیر مقلدین کے چند اعتراضات کے مسکت جوابات)
۳۔ مکمل تاریخ وہابیہ ۲۵۶ صفحات (دورِ حاضر کے خوراج وہابیہ کی نقاب کشائی)
۴۔ تنویر المصابیح فی حدود التراویح (بیس تراویح کا ثبوت)
۵۔ معدنِ اخلاق (غیر مطبوعہ) (اخلاقیات پر جامع کتاب) [۱]
[۱۔ مولانا محمد رمضان علی قادری کے یہ تمام کوائف مولانا مولا بخش سندھی متعلم جامعہ نظامیہ رضویہ کے توسط سے حاصل ہوئے]
(تعارف علماءِ اہلسنت)