حضرت محمد سید بقا علیہ الرحمۃ
و ۱۱۳۵ھ ف ۱۱۹۸ھ
سید محمدبقا کی ولادت ۱۱۳۵ کو رسول پور سائدی خیر پور میں ہوئی۔ چونتیسویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جاملتا ہے۔ علوم ظاہری کی تکمیل کےبعد سید محمد بقا نے مختلف سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیوض حاصل کیےسلاس ۔۔۔۔
حضرت محمد سید بقا علیہ الرحمۃ
و ۱۱۳۵ھ ف ۱۱۹۸ھ
سید محمدبقا کی ولادت ۱۱۳۵ کو رسول پور سائدی خیر پور میں ہوئی۔ چونتیسویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جاملتا ہے۔ علوم ظاہری کی تکمیل کےبعد سید محمد بقا نے مختلف سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیوض حاصل کیےسلاسل قادریہ میں سیدعبدالقادرحسینی سے اکتساب فیض کیا جو شیخ سد صالح شاہ قادری کے مرید تھے۔ سلاسل چشتیہ اور نقشبندیہ میں آپ کی رہبری مخدوم اسمٰعیل روہڑی نے کی۔ آپ کے مرشد ان سلاسل میں خواجہ اسمٰعیل ، خواجہ جمال اللہ، شیخ حاجی ایوب ، شیخ سعدی لاہوری، شیخ سید آدم بنوری، شیخ رکن الدین پانی پتی کی توسط سے خواجہ معین الدین چشتی خواجہ باقی باللہ، خواجہ امکنگی ، درویش محمد، خواجہ محمد زاہد، خواجہ عبید اللہ احرار، خواجہ یعقوب چرخی، خواجہ بہاوالدین نقشبندی معروف تھے۔
سید علی گوہر حسینی نے اپنی کتاب خزینۃ المعرفت (قلمی) صفحہ ۸،۷ اور ۹ پرتینوں کی تفصیل درج کی ہے۔ سید محمد بقا نے قادریہ، چشتیہ اور نقشبندیہ سلاسل کے سر چشموں سے فیض یا ب ہوکر سندھ میں عرفان و تصوف کی دولت کو عام کیا اور اپنی پور ی زندگی رشد و ہدایت میں صرف کی۔ وہ سندھی زبان کے بلند پایہ شاعر تھے۔ ۹ربیع الثانی ۱۱۹۸ھ میں سید بقا کتابوں کی گٹھڑی سر پر رکھے ہوئے تشریف لیے جارہے تھے کہ راستہ میں ڈاکوں نے اس گٹھڑی کو مال و دولت سمجھ کر آپ شہید کردیا۔ قصبہ شیخ طیب(خیر پور ) میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ سید محمد بقاکے کل اٹھارہ فرزند تھے جن میں پیر سید محمد راشد روضہ دہنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے علم و فضل، تقوی، تقدس، عرفان اور تصوف کے اعتبار سے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ آپ ہی کی اولاد میں سندھ کے مشہور پیر پگارا پیر سکندر شاہ، شاہ مرداں ثانی کے لقب سے زینت آرائے سجادہ ہیں غرض یہ کہ آپ نے فضل و عرفان کی جو شمع روشن کی تھی اس کی روشنی سر زمین سندھ کے چپہ چپہ پر پھیلی۔
(تذکرہ صوفیاء سندھ ص ۶۳۳ تا ۲۷۳)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )