حضرت محمد طاہر اشرف اشرفی الجیلانی سید علیہ الرحمۃ
و ۱۳۰۷ھ۔ ۱۹۶۱ء
چھٹی صدی ہجری اور اس کے قریب کا زمانہ میں اولیاء کرام کے باران فیض کا دور ہے کثیر تعداد میں بزرگان دین اس زمانے میں عالم اسلام کے مرکزی مقامات سے ہندوستان میں وارد ہوئے ان ہی بزرگوں میں ایک عظیم روحانی شخصیت غوث العالم تارک السلطنت ہحبوب یزدانی حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ہے جو ایران کی ایک ریاست سمنان کے شہنشاہ تھے اور ترک سلطنت کے بعد ہجرت فرما کر ہندوستان تشریف لائے اور مقام کچھو چھہ شریف ضلع فیض آباد یوپی میں مقیم ہوئے اور یہیں وصال فرمایا
حضرت مخدوم سمنانی قدس سرہ نے زندگی تجرد میں گزاری لیکن آپ کے سلاسل نسبی اور بیعت آپ کے خواہر زادہ حضرت سید عبدالرزاق نور العین سے چلتے ہیں جو حضرت غوث الاعظم قدس سرہ کے پوتے تھے حضرت مخدوم سمنانی قدس سرہ حضرت عبدالرزاق نورالعین کو اپنی ہمشیرہ محترمہ سے کمسنی ہی میں مانگ لائے تھے اور آپ نے خود ہی ان کی تربیت فرمائی اور اپنے وصال سے پہلے حضرت نور العین کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر فرمایا
شہنشاہ شاہ جہاں کے زمانے میں حضرت نورالعین کی اولاد میں سے ایک مقتدر بزرگ حضرت سید محمد اشرف صاحب اشرفی الجیلانی بادشاہ وقت کے بلاوے پر کچھو چہ شریف ضلع فیض آباد دہلی تشریف لائے تھے ۔
ان کا قیام پرانی دہلی میں گلی قاسم جان عقب محلّہ بلیمار ان میں تھا ان کے صاحبزادے اور جانشین حضرت سید عبدالوہاب اشرفی الجیلانی قدس سرہ تھے حضرت سید عبدالوہاب اشرفی الجیلانی کے چار صاحبزادے سب سے بڑے صاحبزادے کا نام سید احمد اشرف اور چوتھے صاحبزادے کا نام سید شریف اشرف تھا یہ خاندان بڑا محترم گردانا جاتاتھا شاہان دہلی ہر عہد میں اس گھرانے کا احترام ولحاظ رکھتے تھے اور معززین دربار میں سے ایک کثیر تعداد اس خاندان سے متوسل رہتی تھی شہنشاہ اور نگزیب عالمگیر نے اس خاندان کے لیے ایک فرمان سند کے طور پر جاری کیا تھا جو آج بھی لال قلعہ دہلی کے قدیمی نوادرات میں شامل ہے۔
حضرت سید عبدالوہاب اشرفی الجیلانی قدس سرہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت سید محمد اشرف اشفی الجیلانی مغل دور کے آخری پہرے میں شاہی قلعہ میں معلمی کے فرائض انجام دیا کرتے تھے دہلی میں اس سلسلے کی ترویج و اشاعت کے لیے انہوں نے اپنی خانقاہ بنام حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی تعمیر فرمائی تھی اور رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری کیا آپ اسی خانقاہ میں تشریف فرما رہتے تھے اور لوگ وہاں حاضر ہو کر آپ سے فیض حاصل کیا کرتے تھے اس طرح یہ سلسلہ اشرفیہ کی پہلی خانقاہ تھی جو دہلی میں قائم کی گئی حضرت سید محمد اشرف اشرفی الجیلانی کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے سید حامد اشرف اور ان کے صاحبزادے سید محمود اشرف صاحب بھی تاحیات اسی خانقاہ میں مقیم رہے حضرت سید محمود اشرف صاحب کے دو صاحبزادگان تھے ایک کا نام سید حسن اشرف اور دوسرے کا نام سید حسین اشرف تھا حضرت سید محمود اشرف صاحب کے وصال کے وقت یہ دونوں صاحبزادگان دوار تین سال کی عمرؤں میں تھے ہوا فرنگیوں نے جب دہلی پر غاصبانہ قبضہ کیا تو ان تمام حضرات کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا جو شاہی قلعہ سے منسلک رہے تھے چناں چہ سید محمود اشرف صاحب کا خاندان بھی محفوظ نہ رہ سکا اور یہ لوگ خانقاہ سے نکل کر عرب سرائے میں پناہ گزیں ہوئے اس افرا تفری میں تمام تبرکات خاندانی تلف ہوگئے جب امن و امان ہوا اور اجاڑے گئے لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو اس وقت خانقاہ مکمل طور پر تباہ ومسمار کی جاچکی تھی آخر کار حضرت سید محمود اشرف صاحب کی زوجہ محترمہ اپنے دونوں کمسن صاحبزادگان سید حسن اشرف اور سید حسین اشرف کو لیکر پرانی دہلی محلہ چوڑی والان گلی تخت والی میں آکر آباد ہوگئیں اور ان کی تربیت شروع کی جب یہ دونوں صاحبزادگان پاکیزہ تربیت اور دینی ماحول میں جوان ہوئے تو بڑے صاحبزادے سید حسن اشرف صاحب پیمائش آراضی پر ملازم ہوگئے جبکہ دوسرے صاحبزادے حافظ سید حسین اشرف صاحب بطریق اسلاف مدرسۂ حسین بخش دہلی میں معلمی کے فرائض انجام دینے لگے۔
حضرت سید عبدالوہاب اشرفی الجیلانی قدس سرہ کے بڑے صاحبزادے حضرت سید میرن شاہ کی اولاد میں اس وقت سیدمحی الدین اشرف اشرفی الجیلانی موجود ہیں اور گلشن اقبال کراچی میں مقیم ہیں اور خلف ثانی حضرت سید محمد اشرف صاحب اشرفی الجیلانی کی اولاد میں صاحب تذکرہ قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کا خاندان درگاہ عالیہ اشرفیہ اشرف آباد فردوس کالونی اور مسکن سادات اشرفی الجیلانی میں مقیم ہیں۔ حصرت شاہ سید حسن اشرف خلف اکبرر حضرت سید محمود اشرف صاحب کی اولاد میں اس وقت جاوید اشرف، سید حبیب اشرف، سید سلمان اشرف،اور سید محسن اشرف کراچی اور لاہور میں مقیم ہیں۔ حضر ت قطب ربانی ابو مخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ کے برادر اصغر سید سلطان اشرف الجیلانی شہید کی اولاد میں اس وقت سید رحمن اشرف جیلانی اور سید فرقان اشرف جیلانی گلشن اقبال کراچی میں مقیم ہیں۔
حضرت سید عبدالوہاب اشرف الجیلانی قدس سرہ کے دیگر دو صاحبزادگان سید شریف اشرف اور سید احمد اشرف اور ان کی اولاد کا پتہ نہیں کہ کہاں گئے شاید غدر دلی میں کہیں اور جا کر آباد ہوگئے اس طرح یہ دو شاخیں ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں، حضرت سید محمد اشرف خلف ثانی حضرت عبدالوہاب اشرفی اور ان کے صاحبزادے سید حامد اشرف جیلانی اور ان کے صاحبزادے سید محمود اشرف جیلانی اپنی ہی خانقاہ میں مدفون ہیں، قیام پاکستان کے وقت تک حضرت سلطان نظام الدین اولیاء کے راستے میں یہ مزارات تھے اور یہی اس خانقاہ کے آخری نشانات تھے جبکہ حضرت سید عبدالوہاب اشرفی الجیلانی قدس سرہ کا مزار مبارک گلی قاسم جان مدرسہ عنایت اللہ خان میں اب بھی موجود ہے۔
قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمد طاہر اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ اسی عظیم خانوادے کے چشم و چراغ تھے آپ کا سلسلہ نسب ۲۵ پشت میں محبوب سبحانی غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی حسنی الحسینی رضی اللہ تعالٰی عنہ سےاور ۳۸ویں پشت میں سرور کائنات فخر موجودات ﷺ سے ملتا ہے اس لحاظ سے آپ حسنی اور حسینی سید ہیں۔
ولادت باسعادت:
حضرت قطب ربانی ۱۲ ربیع الاول ۱۳۰۷ھ مطابق ۱۸۸۹ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم والدہ محترمہ سے حاصل کی جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چارد دن ہوئی تو بڑی دھو م دھام سے آپ کی تسمیہ خوانی کی گئی بعد ازاں والد گرامی نے اپنے مدرسہ حسین بخش میں تعلیم شروع کی آپ نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھائی کا آغاز کیا اورتقریباً چھ سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل کر کے قرأت سیکھنا شروع کی اور بہت جلد اس فن میں کمال حاصل کر لیا آپ کی آواز اس قدر جاذب اور پر اثر تھی کہ جب کبھی آپ تلاوت فرماتے تو حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی اکثر بزرگان دین نے آپ کی کم عمری میں ہی آپ کے منازل سلوک پر فائز ہونے کی بشارت دی تھی چناں چہ جب آپ کی عمر چھ سال تھی تو ایک روز آپ اپنے والد محترم کےپاس تشریف فرما تھے کہ ایک درویش تشریف لائے وہ پہلے تو آپ کو متجس نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر انہوں نے آپ سے سورۂ یوسف سننے کے خواہش ظاہرکی آپ نے قرأت شروع کی اس دوران وہ بزرگ کبھی مسکرائے اور کبھی روتے رہے تلاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے بڑھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا والد گرامی نے جب اس مسکرانے اور رونے کی وجہ دریافت کی و ان درویش بزرگ نے فرمایا حضور مسکراتا تو یوں ہوں کہ آپ کا یہ نورالعین افق ولایت پر آفتاب بن کر چمکے گا لاکھوں انسان اس سے فیض پائیں گے لین افسوس کہ آپ اس کی بہار نہ دیکھ سکیں گے یعنی اس دنیا میں نہیں ہوگں گے اس کے بعد درویش نے حضرت قطب ربانی کی پیشانی کو ایک مرتبہ پھر بوسہ دیا اور غائب ہوگیا اور اس کے بعد کبھی نظر نہیں آیا لیکن یہ ضرور ہے کہ اس واقعہ نے حضرت سید حسین اشرف شاہ جیلانی قدس سرہ کے دل پر گہرا اثر کیا اور انہوں ے تعلیم کے ساتھ آپ کی روحانی تربیت بھی شروع کردی۔
تحصیل علم :
۱۳۱۸ھ میں آپ سایہ پدری سے محروم ہوگئے اس وقت آپ کی عمر ۱۱ سال تھی والد گرامی کے وصال کےبعد پورے گھر کی کفالت کی ذمہ داری آپ پر آگئی لیکن آپ نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے اس ذمہ داری کو نبھایا اور ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی جاری رکھا آپ مسجد فتحپوری سے ملحق مدرسہ میں داخل ہوئے اور اس دور کے جید علماء سے درس نظامیہ کی کتب پڑھیں کیوں کہ ابتدائی عربی و فارسی کی کتب آپ پہلے ہی اپنے والد محترم حضرت حافظ سید حسین اشرف جیلانی سے پڑھ چکے تھے۔
دورہ حدیث شریف کی تکمیل آپ نے مشہور مفتی و محدث جناب حبیب احمد صاحب علوی علیہ الرحمۃ سے کی حضرت مفتی صاحب آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے کئی کئی گھنٹے مسلسل آپ کو حدیث شریف پڑھاتے تھے مفتی صاحب نے اپنے شاگرد میں ہو نہاری کے آثار دیکھتے ہوئے اپنی صاحبزادی سے آپ کا عقد کردیا شادی کے بعد حضرت کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہوگیا چناں چہ آپ نے اس ذمہ داری سے عہدہ پر آہونے کے لیے مدرسہ حسین بخش میں والد محترم کی جگہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کی اور کئی سال تک معلمی کے فرائض انجام دیتے رہے لیکن عبادت و ریاضت کا سلسلہ اس طرح جاری رہا۔
کشمیر میں چلہ کشی:
اگر چہ والد محترم حضرت حافظ سید حسین اشرف جیلانی قدس سرہ نے آپ کو کم عمری میں ہی بہت سے اسرار و رموز سے آگاہ فرمادیا تھا چلے وغیرہ بھی کروادئیے تھے لیکن ان کے اچانک وصال سے روحانی تعلیم کا جو سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہوگیا جس کا آپ کو بے حد قلق تھا یہ دور آپ کے لیے بڑا آزمائشی تھا ایک طرف تو معاشی معاملات حضرت کے روحانی رجحانات کو چیلنج کر رہے تھے اور دوسری طرف رہ سلوک کے نشیب و فراز سے کما حقہ واقفیت کرانے والا باپ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا تھا لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود آپ نہایت صبرو استقامت سے حالا ت کا مقابلہ کیا اور عبادت وریاضت میں مشغول رہے اسی دوران آپ کی ملاقات سلسلہ قادریہ اویسیہ کے ایک بزرگ حضرت سید احمد حسین الملقب امیر علی شاہ کمبل پوش صاحب سے ہوئی انہوں نے تکمیل مقامات میں آپ کی رہنمائی فرمائی آپ نے حضرت کمبل پوش صاحب کی زیر نگرانی کشمیر کی دشوار گزار پہاڑیوں میں تقریباً بارہ سال چلہ کشی کی ، چلہ کشی سے فارغ ہوکر جب آپ غار سے باہر تشریف لائے تو پرندوں نے آپ کے سر پر سایہ کیا اس کے بعد یہ کیفیت ہوگئی کہ جب آپ کبھی دن کے وقت دھوپ میں باہر نکلتے تو دس بارہ چیلیں کہیں سے آجاتیں اور آپ کے سر پر سایہ کیے رکھیں آپ نے یہ صورت دیکھی تو کچھ پڑھ کر انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا تو وہ چیلیں غائب ہوگئیں حضرت کمبل پوش صاحب نے آپ کو بیعت نہیں کیا بلکہ مرشد کامل کی بشارت دے کر رخصت ہوگئے۔
مرشد کامل سے شرف بیعت:
جب حضرت کمبل پوش صاحب نے آپ کو مرشد کامل کی بشارت دی تو کچھ دنوں بعدمجدد سلسلہ اشرفیہ اعلی حضرت سید شاہ حسین اشرفی المعروف اشرفی میاں دہلی تشریف لائے آپ کی ذات بابرکت سے سلسلہ اشرفیہ کو جو فروغ حاصل ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ اشرف میاں کی نظر خانوادہ اشرفیہ کے اس ابھرتے ہوئے روشن ستارے پر پڑی تو آپ نے حضرت قطب ربانی کو شرف توجہ بخشا اور بیعت سے مشرف فرمایا معمولات خاندانی کی تعلیم دی اورخلعت خاص۔ خرقہ مبارک اور تاج اشرفی سے سرفراز فرما کر سلسلہ عالیہ چشتیہ قادریہ سراجیہ اشرفیہ میں مجاز بیعت کر کے شجرہ شریف دستخط و مہر سے مزین عطا فرمایا یہ خلعت خاص۔ خرقہ مبارک تاج اشرفی اور شجرہ شریف تبرکات اشرفی کے طور پر درگاہ عالیہ اشرفیہ اشرف آباد ( فردوس کالونی کراچی) میں محفوظ ہیں۔ حضرت قطب ربانی قدس سرہ نے ۱۳۳۲ھ میں اشرفی میاں کے دست مبارک پر بیعت کی تھی اور بیعت کے فورا بعد اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ نے آپ کو سلسلہ اشرفیہ اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی تھی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کے علاوہ بھی آپ کو دیگر مشائخ طریقت سے ۱۳ سلاسل کی خلافتیں عطا ہوئیں جن کی تفصیل یہ ہے:
۱۔سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ سراجیہ اشرفیہ اور قادریہ جلالیہ اشرفیہ نیز معمریہ منوریہ کی خلات اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی الجیلانی المعروف اشرفی میاں قدس سرہ سے حاصل ہوئی۔
۲۔ سلسلہ عالیہ صابریہ نقشبندیہ، سہروردیہ، قادریہ کی خلافت حضرت شاہ تسلیم احمد صاحب صابری امروہی علیہ الرحمۃ سے حاصل ہوئی۔
۳۔ سلسلہ فخریہ نظامیہ شمسیہ کی خلافت حضرت میاں عبدالصمد شاہ صاحب علیہ الرحمۃ سے حاصل ہوئی ۔
۴۔ سلسلہ قادریہ اویسیہ کی خلافت حضرت سید احمد حسین الملقب امیر علی شاہ کمبل پوش علیہ الرحمۃ سے حاصل ہوئی۔
۵۔ سلسلہ نقشبندیہ اصرار یہ ابو العلائیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت حضرت نوشہ میاں قادری علیہ الرحمۃ سے حاصل ہوئی۔
سیاحت اور تبلیغ دین:
بیعت اور خلافت کےبعد آپ کے مرشد کامل اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ کے حکم سے تبلیغ دین کے لیے روانہ ہوگئے اور اس سلسلے میں پہلا سفر کلکتہ کا کیا ابتداء میں لوگ آپ سے ناواقف تھے لیکن جب دھرم تلہ کے میدان مین آپ نے پہلی تقریر فرمائی تو اس یوقت آپ کی تقریف کے بعد کئی سو ہندو مسلمان ہوئے اس کے بعد آپ کی شہرت دور دور پھیل گئی لوگ جوق در جوق سلسلہ اشرفیہ میں داخل ہونے لگے وہاں سے آپ ضلع گیا تشریف لے گئے جو ایک پسماندہ علاقہ تھا مذہب سے دوری اور ہندوانی رسوم کا رواج عام تھا مسجدیں بہت تھیں جب کہ دینی مدارس کا نام تک نہ تھا آپ نے جب یہ صورت دیکھی تو بہت سے تبلیغی اور اصلاحی اقدامات کیے پہلے اپنے مریدین میں سے چند پڑھے لکھے سمجھ دار لوگوں کو منتخب کر کے انہیں دین کے ضروری احکامات سمجھائے اور پھر انہیں مختلف علاقوں میں بھیجا اس کے علاوہ آپ خود بھی کئی کئی گھنٹے مسلسل درس دیتے تھے اور اصلاحی بیان فرماتے تھے جس میں نماز روزہ حج۔ زکوٰۃ طہارت پاکیزگی وغیرہ کے ضروری احکامات سمجھاتے تھے۔ قرآن کریم کی تعلیم کے یلے آپ نے اپنے مریدین میں سے حفاظ کو منتخب کیا اور حکم دیا کہ ان علاقوں میں جاکر لوگوں کو قرآن کریم پڑھائیں آپ کے حکم کی تعمیل میں ان حفاظ نے بلا معاوضہ قرآن کریم کی تعلیم دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو تین سال کے عرصے میں قرآنی تعلیم عام ہوگئی آپ نے ضلع گیا اور اس کے گرد و نواح میں کئی مساجد قائم کیں اور ان میں باقاعدہ امام و موذن مقرر کیے ان علاقوں میں دینی کتب کی کمی تھی جب آپ دوبارہ تشریف لے گئے تو دہلی سے کافی تعداد میں دینی کتب اپنے ساتھ لے کر گئے اور وہاں کی مساجد و مدارس کے علاوہ لوگوں میں مفت تقسیم کیں اس کے بعد آپ کا یہ معمول ہوگیا کہ ہر سال کلکتہ تشریف لیجاتے اور تین مہینے اسلامیہ بلڈنگ میں زکریا اسٹریٹ ہر قیام فرماتے پھر وہیں سے ضلع گیا اور اس کے گردو نواح کے دیگر علاقوں کا دورہ کرتے اور تبلیغی کام کا جائزہ لیتے کلکتہ کے علاوہ بمبی، پونا، گوالیار، بنارس، بہار، اور لکھنؤ وغیرہ میں آپ کے مریدین کی کافی تعداد موجود تھی اور اپ ہر سال ان تمام شہروں کا دورہ فرماتے تھے اس طرح آپ نے چون سال سیاحت کی ہزاروں کو مسلمان کیا اور لاکھوں مسلمانوں کو اصلاح کے ذریعے صراط مستقیم پر گامزان کر دیا۔
کشف و کرامات:
یوں تو آپ کی ذات گرامی سے کشف و کرامات کے بے شمار واقعات ظہور پذیر ہوئے لیکن یہاں مضمون کی طوالت کے پیش نظر چند ایک ذکر کیے جاتے ہیں ہندوستان کے صوبہ بہار کے ضلع گیا سے کچھ دور نبی نگر ریلوے اسٹیشن سے ملحق ایک بستی ‘‘دیگونا’’ کے نام سے آباد ہے یہاں ایک جادو گر نے لوگوں کو از حد پریشان اور ہرااسں کر رکھا تھا وہ ان سے اناج اور پیسہ وصول کرتا تھا اور جو شخص دینے سے انکار کرتا جادو کے زور سے اس کے گھر اور کھیت میں آگ لگا دیا کرتا تھا حضرت قطب ربانی کا قیام ان دنوں کلکتہ میں تھا اس بستی کے مسلمانوں کو جب آپ کی آمد کی خبر ملی تو انہوں نے خدمت قدس میں حاضر ہوکر درخواستکی کہ انہیں مذکورہ جادو گر کے ساحرانہ مظالم سے نجات دلائی جائے حضرت نے درخواست منظور فرمائی اور ان کے ہمراہ بستی دیگونا تشریف لے گئے جہاں ہزاروں افراد کی موجودگی میں جادوگر سے زبردست مقابلہ ہوا آپ کے لیے ایک چار پائی کھیت کے درمیان بچھادی گئی جس پر آپ تشریف فرمائے ہوئے آپ نے اپنا عصا زمین میں گاڑھ دیا اور چاروں طرف حصار باندھ دیا جادو گر اور اس کے چیلے آپ کے سامنےتقریباً بیس فٹ کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے اس نے آپ پر پہلا حملہ یہ کیا کہ آپ کی چار پائی کے گرد آگ لگادی جب شعلے بلند ہوئے تو مریدین گھبرا گئےآپ نے اسی وقت کچھ پڑھ کر پھونکا جس سے وہ آگ بجھ گئی اس کے اس کے بعد جادو گر نے آپ پر کئی حملے کیے اور مختلف چیزیں سانپ اور دیگر زہریلے جانوروں کی شکل میں آپ کی طرف بھیجیں لیکن یہ سب چیزیں آپ کی چار پائی طرف آیا اور آپ کے سر کے اوپر ۱۰ فٹ کے فاصلے پر رک گیا اور اس میں سے آگ برسنے لگی اور ایک مرتبہ پھر آپ کی چار پائی کے اطراف میں آگ لگ گئی پھر وہ گھیرا آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آنے لگا یہاں تک کہ حضرت کے سر سے صرف دو فٹ کی بلندی پر رہ گیا جب آپ نے ذرا تپش محسوس کی تو کچھ پڑھ کر اپنی انگلی سے اشارہ کیا آپ کا اشارہ کرنا تھا کہ وہ گھیرا تیزی کے ساتھ جادو گر کی طرف پلٹا جادو گر نے جب اپنے ہی وار کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو گبھرا گیا اور تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا گھیرا نہایت تیزی کے ساتھ آیا اور ایک زور دار دھماکہ کے ساتھ زمین میں دھنس گیا اور اس جگہ سے پانی ابلنے لگا آپ نے اپنی روحانی طاقت سے اس کا سارا جادو سلب کرلیا اور بالاخر اس نے آپ کی روحانی عظمت کے سامنے اپنی شکست کا اعتراف کرلیا اور خود آپ کے قدموں پر گر کر تو بہ کی اور اسلامی میں داخل ہوگیا جادو گر کے ساتھ اس کے چیلے بھی مسلمان ہوئے آپ کی یہ کرامت دیکھ کر اس بستی کے گردو نواح کے تقریباً چھ ہزار غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے اور بستی والے ہمیشہ کے لیے اس آفت سے محفوظ ہوگئے ان لوگوں نے خوش ہوکر آپ کی خدمت میں جو منقولہ اور غیر منقولہ املاک پیش کیں آپ نے وہ تمام کی تمام نو مسلم غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیں اور واپس کلکتہ تشریف لے آئے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رشد و ہدایت کے سلسلے کو جاری رکھا۔
ہجرت پاکستان :
برکات فیوض اشرفی کی یہ شمع نور ۱۹۴۷ء تک دہلی میں فروزاں رہی اور تقسیم ملک کے وقت حضرت قطب ربانی قدس سرہ نے معہ اہل و عیال کراچی ہجرت فرمائی آپ پابندی قوانین شریعت پر زور دیتے تھے اور حاضرین مجلس و مریدین کو صوم و صلواۃ کی پابندی کی تلقین فرماتے تھے ننگے سر بیٹھے والے کو سخت ناپسند کرتے تھے اور آداب محفل ملحوظ رکھنے کی سخت تاکید فرماتے تھے ۱۹۵۶ء میں آپ نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا اور خصوصیات سے اپنے فرزند اور جانشین حضرت ابو محمد شاہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی مد ظلہ العالی کو ساتھ رکھا اور اٹھارہ شہروں کا دورہ کیا آپ نے اپنے مریدین سے فرمایا اب یہ میرا آخری دورہ ہے اس کے بعد تم مجھ سے نہیں مل سکو گے لہٰذا جس کو مجھ سے ملنا ہو مل لے لوگ زاروقطار روتے ہوئے آتے تھے اور آپ کی زیارت کرتے تھے اس دورے میں آپ نے مریدین سے فرمایا میرے بعد شریعت و طریقت پرعمل کرنا لیکن شریعت کو ہر حال میں مقدم رکھنا۔
خرابی صحت و وصال:
اس دورے کے بعد آپ کی طبیعت خراب رہنے لگی علالت کے باعث آپ حجرہ مبارک میں رہنے لگے اور سارا کام اپنے جانشین ابو محمد سید احمد اشرف الاشرفی الجیلانی کی سپرد کر دیا آپ کے علاج کے لیے جب ڈاکٹر کرنل شاہ کو بلایا گیا تو انہوں نے کافی دیر آپ کا معائنہ کیا اور بعد میں مریدین سے کہا کہ میں نے اپنی عمر میں آج تک ایسا مریض نہیں دیکھا کہ جب میں نے ان کے دل پر آلہ لگایا تو ان کے دل سے اللہ ھو اللہ ھوکی آواز آرہی تھی ان میں روحانیت کا بہت غلبہ ہے۔
علالت کے دوران آپ چہل قدمی فرماتے ہوئے اس مقام تک آئے جہاں آپ کا مزار ہے مختلف مقامات سے مٹی اٹھا کر سونگھی پھر ایک مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ‘‘ہماری مٹی اس جگہ کی ہے یہیں ہمارا مدفن ہوگا’’ چناں چہ ۱۷ جمادی الاولی ۱۹۶۱ء میں حضرت قطب ربانی نے وصال فرمایا آپ کی نماز جنازہ غزالی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی نور اللہ مرقدہ نے پڑھائی اور آپ کا مزار مبارک آپ کی نشان کردہ جگہ پر ہی بنایا گیا آپ نے اپنی زندگی میں اپنے فرزند ابو محمد شاہ سید احمد اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی کو اپنی خاص نگرانی میں چلہ کشی کروائی اورمنازل سلوک عرفاں طے کرانے کے بعد وقت کے جید علماء وصوفیاء کی موجود گی میں سلسلہ اشرفیہ اور اس کے علاوہ دیگر سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور اپنا جانشین مقرر کیا چناں چہ حضرت قطب ربانی کے وصال کے بعد آپ ہی کے حکم کے مطابق حضرت ابو محمد شاہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی درگاہ عالیہ اشرفیہ کے سجادہ نشین مقرر ہوئے اور آج یہ درگاہ سلسلہ اشرفیہ کا فیض آپ کے دست کرم سے جاری ہے حضرت قطب ربانی قدس سرہ کے وصال مبارک کو ۳۴ سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی آپ کا مزار مبارک درگاہ عالیہ اشرفیہ اشرف آباد فردوس کالونی کراچی میں مرجع خلائق ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸ جمادی الاولی کو شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )