حضرت محمد صدیق حافظ بھر چونڈوی علیہ الرحمۃ
و۔۱۲۳۴ھ ف۔۱۳۰۸ھ
حافظ محمد صدیق قدس سرہ بھر چونڈوی کے بانی کہلاتے ہیں، آپ کا خاندان کیچ مکران کے راستہ سندھ میں داخل ہوااور بھر چونڈی سے شمال کی جانب دو تین میل کے فاصلے پر اس زمانہ کی شاہی سڑک کے کنارے آباد ہوگیا، جس کے نشانات آج بھی پائے جاتے ہیں، آپ کے والد کا نام میاں محمد ملوک تھا، انکا گذر بسر کاشتکاری پر تھا، وہ حافظ صاحب کے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے ، حفظ قرآن کے بعد بہاولپور میں احمد پور کے علاقہ میں بستی جندو ماڑی میں ایک مکتب میں داخل ہوگئے آپ کے بچپن ہی میں مخدوم سید محمود راشد روضی دھنی قدس سرہ کے خلیفہ خاص سید حسن شاہ صاحب جیلانی قدس سرہ بھر چونڈی کے قریب جنگل میں خیمہ زن ہوئے، آپ کا قدم رنجہ فرمانا تھا کہ آپ کی روحانی کشش سے مخلوق خدا پروانہ وارخیمہ کے گرد آئی اور یاد خداپروانہ وار خیمہ کے گرد آئی اور یاد خدا میں مشغول ہوگئی، رشد و ہدایت کے چشمے پھوٹ پڑے، شدہ شدہ یہ خبر حافظ صاحب کی والدہ کو بھی ہوگئی، وہ اپنے لخت جگر کو لیکر حاضر ہوگئیں، حافظ صاحب کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی، سید محمد حسین شاہ صاحب جیلانی رحمہ اللہ بانی خانقاہ سوئی شیر گڑھ ضلع ساہیوال کے باشندے تھے، تلاش حق نے جگہ جگہ کی گرد آوری کے بعد بالاخر منزل مقصود پر پہنچا دیا، حضرت سید محمد راشد صاحب عرف پیر گارہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کی خدمت سے مشرف ہوکر ان کے ممتاز خلیفہ ہوئے،پیر پاگارہ صاحب فرمایا کرتے تھے، میں نے بعض خلفاء کو ان کے خواہش پر خلافت دی، اور بعض کو میں نے اپنی مرضی سے دی اور بعض کےبارے میں اللہ کا حکم ہوا کہ ان کو خلافت دو یہ پنجابی سید (سید محمد حسن) اس تیسرے گروہ میں سے ہے سید صاحب نے تمام زندگی تجرد میں گزاری ان کے وصال کے بعد ان کے پیر بھائی اور رفیق خاص محمد حسین صاحب المعروف بہورل صاحب سجادہ نشین ہوئے، یہ بھی مجرد تھے، وصال کے وقت آپ نے حضرت حافظ صاحب کو گدی سپر د کردی لیکن حافظ صاحب نے تعظیماً اپنے شیخ کی مسند پر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا، ایک درویش مہاں ابو بکر عرف سانوال کو آپ نے سجادہ نشین بنا دیا، تین ماہ تک آپ مزید سوئی میں مقیم رہے، پھر سوئی کی جانب شرق تین میل کے فاصلے پر بھر چونڈی کے مقام پر نئی خانقاہ کی بنیاد ڈالی۔
آپ نے اپنے سلسلہ طریقت کی بنیاد تین چیزوں پر رکھی، تلاوت قرآن کریم، نماز ،ذکر خدا، یہ تین چیزیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں جمع ہیں،
‘‘اتل مااوحی الیک من الکتاب واقم الصلٰوۃ ان الصلٰوۃ تنھٰی عن الفحشاء والمنکر ولذکراللہ اکبر’’
ترجمہ:‘‘ آپ تلاوت کیجیے اس کتاب کی جو بذریعہ وحی آپکو عطا کی گئی ہے اور نماز قائم کیجیے، بلاشبہ نماز بے ہودہ اور بری باتوں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے’’۔
آپ نے ہر مردوزن چھوٹے اور بڑے کو اللہ کے ذکر کا خوگر بنا دیا تھا۔
ذکر او سرمایہ ایمان بود
ہر گداز یاد او سلطان بود
آپ کاطریق ارشاد و نصیحت نہایت موثر اور حکیمانہ تھا، ہر شخص کو اس کے حسب حال نصیحت فرماتے تھے۔
ایک شخص بیعت کے لیے خدمت ہو ا آپ نے فرمایا تو اپنے بیل کو چارہ زیادہ دیا کر کہ سیر ہوکر اچھا کام کر لے گا، دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو نصیحت کرتے ہوئےفرمایاتو اپنے باز کو بھوکا رکھ کہ شکار اچھی طرح کرے، ان کی صالحیت کا یہ عالم تھا کہ عصیاں شعار ان کو دیکھ کو خود اپنے جر م کے معترف ہوکر تائب ہوا کرتے تھے، ایک مرتبہ صبح کی نماز کو باہر نکلے ایک لڑکا سردی میں کھڑا کانپ رہا تھا، فرمایا تمہاری چادر کہاں گئی؟ عرض کرنے لگا حضور کسی نے چرالی ہے، ظہر کی نماز سے فراغت سے بعد حضرت حسب معمول روبہ ، جماعت تشریف فرما ہوئے تو پھر وہی لڑکا حاضر خدمت ہوا اور عرض کرنے لگا حضور مجھے توبہ کرا دیجیے، فرمایا کیا گناہ کیا ہے؟ کہنے لگا صبح میں نے گمان کیاتھا کہ کسی نے میری چادر چرالی ہے! درحقیقت چادر میرے بستر ہی میں تھی، میں نے رسول اللہ ﷺ کی امت پر بدگمانی کی، آپ نے اس سے توبہ کرائی، اس واقعہ کا حاضرین مجلس پر گہرا اثر ہوا۔
الٰہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا
کہ اک نظر میں جوانوں کو رام کرتے ہیں
ایک پارچہ باف (کپڑا بننے والا) نماز میں تاخیر سے پہنچا ، اس نے حضرت کی خدمت میں کپڑا تو ایک طرف رکھ دیا، اس سے دریافت کیا کہ نماز میں دیر کیوں کی؟ کہنے لگا حضور یہ کپڑا جو آپ کی خدمت میں نذر کیا ہے بن رہا تھا، تھوڑاسابننا باقی رہ گیا تھا سو چا راہی کرلوں، یہ سن کر آپ نے کپڑا جلا دیا، کہ وہ راہ حق میں رکاوٹ بنا تھا، ساسی دنیا کو حدیث شریف میں مردار کہاگیاہے اور اس کے طلبگاروں کو کتا ‘‘الدنیا جیفۃ وطالبھا کلب’’ کاش کہ ہمارے ہمعصر بزرگان دین بھی نذرانے ایسی تفشیش و تحقیق کے بعد قبول کیا کریں۔
فقر قرآن احتساب ہست وبود
نے رباب و رقص و مستی و سرور
آپ کے مہمان خانہ میں ایک شخص مہمان ہوا، حضرت کے یہاں دستور تھا کہ مہمانوں کو رات کا کھانا نماز عشاء کے بعد پیش کیا جاتا تھا، اور یہی دستور امروز چلاآتا ہے، مگر وہ مہمان عشاء کی نماز سے پہلے ہی کھانا طلب کرنے لگا ، مریدین نے کہا نماز کے بعد ہی لنگر کا دال دلیا تقسیم ہوگا، چلو تم بھی نماز پڑھو بعد میں کھانا کھالینا ، کہنے لگا ، میری عمر چالیس برس کی ہے، آج تک نماز نہیں پڑھی اور اللہ تعالیٰ نے میری روٹی بند نہیں کی، تم میری روٹی بند کرتے ہو، مریدین نے یہ واقعہ بعینہ حضور سے کہہ دیا، آپ نے مہمان کو بلا کر فرمایا، یار، خداتعالیٰ سے تو کوئی پوچھنے والا ہے نہیں، لیکن اگر ہم سے یہ سوال ہوا کہ تم نے ایک بے نماز کو کھانا کیوں کھلایا تو ہم کیا جواب دیں گے؟ آپ کے ان سادہ لفظوں نے اس کے مضراب دل کو جنجھوڑ کر رکھ دیا ، فوراً اس پر رقت طاری ہوئی اور شیخ کامل کی ایک ہی نظر چالیس سالہ گناہوں کادفتر ندامت کے آنسوؤں سے دھلنے لگا۔
فقط نگاہوں سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
ایک مرتبہ سندھ کے عظیم مفتی مولانا عبدالغفور ہمایونی کے شہر میں آپ مرید کی دعوت پر تشریف لے گئے، مفتی صاحب اتفاق سے شہر میں موجود نہ تھے، ہمایوں کے بہت سے لوگ حضرت کے مرید ہوگئے، حسب دستور آپ نے انہیں تصور شیخ کی تلقین فرمائی کچھ طالب علم مفتی صاحب کی واپسی پر عرض پرداز ہوئے کہ حضور ایک پیر صاحب آئے تھے بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے ہیں، وہ لوگوں کو ذکر الٰہی کے ساتھ ہی اپنی صورت کے تصور کرنے کا حکم بھی دے گئے ہیں، مفتی صاحب نے فرمایا السلام علیک ایھاالنبی کے کاف خطاب میں تصور بنی نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت حافظ صاحب کو جب یہ بات پہنچی تو فرمایا، کعبہ تین سو ساٹھ کا مرکز تھا جب صورت محمدی کو دیکھا تب کعبہ آثار شرک سے پاک ہوا۔
ازجمال تو کعبہ شد قبلہ
پیش ازیں ورنہ بودبت خانہ
آپ نے مسجد کی تعمیر میں خود پتھر ڈھوئے او گارا اٹھایا، کہ سنت رسول اکرم ﷺ اور سنت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ہے، جو لوگ شریک تعمیر تھے وہ تھی بلند پایہ بزرگ تھے، ایک مستری جو مسجد کی تعمیر میں شریک تھا، فارغ ہوکر جانے لگا تو ظاہر ہے کہ ان تمام کام بلا شرط فی سبیل اللہ لیا تھا، مگر اس کو ملتان جانا تھا، اسٹیشن کے راستے میں سوچ رہا تھا کہ ملتان تک کا کرایہ کہاں سے دوں گا، ان ہی ہی خیالات میں مستغرق جا رہا تھا کہ پیچھے سے حافظ صاحب قدس سرہ کی آواز نے اس کو چونکا دیا فرمایا رکو،قریب تشریف لائے اور ایک تھیلی معمار کو دی، اس نے دیکھا کہ اس کی اجرت سے کئی گنا زائد رقم ہے آپ نے فرمایا تم نے مسجد کاکام فی سبیل اللہ کیا تھا، ہم بھی یہ تم بھی کوفی سبیل اللہ دیتے ہیں، دراصل یہ تربیت نفس تھی، کہ اشراف نفس کے بعد جو دنیا ملتی ہے وہ اولیاء اللہ کے یہاں جائز نہیں اور اشراف نفس کے منقطع ہوجانے کے بعد جو کچھ ملے وہ حلال ہے۔
تو بندگی چو گدایان بشرط مزد مکن
کہ خواجہ خودرویش بن پروری داند
(تمام واقعات تعمیر میں قدرے تغیر کے ساتھ کتاب عباد الرحمٰن سے ماخوذ احوال کے لیے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔مولف)
آپ نے قول و فعل دونوں سے اسلام کی تبلیغ میں حصہ لیا، رحیم یارخان کے جنوب میں آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک ویران شہر کے کھنڈرات پائے جاتے جواب پتن منارا کہلاتا ہے، حافظ صاحب کے زمانہ میں یہاں بدھ مت والوں کا ایک مندر تھا، جو اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا بڑا مرکز تھا، حافظ صاحب کے پیرو مرشد سید حسین جیلانی قدس سرہ نے اپنے فقراء کی ایک جماعت تیار کر کے اس کی کمان حافظ صاحب کو سپرد کی اور فرمایا اس مندر کو ختم کردو، حافظ صاحب کے قیادت میں فقراء نے مندر پر ہلہ بول دیا۔
ذاکرین کے فلک شگاف نعروں اور الا اللہ کی ضربو نے بھکشووں کے دل ہلا دیئے، مند فتح ہوگیا یہ مندر معہ جاگیر سات آٹھ سو بیگھ پر مشتمل تھا، اب وہ فقیراں کے نام سے مشہور ہے۔
(روزنامہ جنگ، بعنوان سندھ کی یادگار یں، مورخہ نومبر ۱۹۶۰)
اتباع شرع کا یہ عالم تھا کہ ایک فقیر نے لنگر کے ایک اونٹ کا پالان کسی کو عاریتاً دے دیا، وہ شخص اس پالان کو اپنے اونٹ پر رکھ کر ایسی شادی میں شریک ہوا جس میں لہو ولعب اور گانا بجانا تھا، پھر وہ پالان واپس کردیا، حضرت کو جب تمام واقعہ معلوم ہوگیا تو پالان جلوادیا، یہ واقعہ بالکل امیر المومنین سیدنا فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس واقعہ کی طرح ہے کہ جب آپ کو مال غنیمت کے قالین کی بابت معلوم ہوا کہ اس پر شاہان ایران بیٹھ کر شراب نوشی کیا کرتے تھے تو اگر چہ وہ اس زمانہ میں بھی لاکھوں کا تھا مگر آپ نے اس کو جلوا دیا۔
(عبادالرحمٰن ،ص۶۱)
تمباکو نوشی اور نسوار خوری کو آپ سخت برا جانتے تھے، نسوار کھانے والے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے جس کھوہ پر تمباکو کاشت ہوتی اس پر وضو نہ فرماتے جس شادی میں ڈھول باجے ہوتے اس میں شرکت نہ فرماتے اور نہ اپنے مریدوں کواجازت دیتے ۔
مولانا عبید اللہ سندھی سے کون واقف نہ ہوگا، ان کو حضرات حافظ صاحب ہی مشرف بہ اسلام کیا تھا، اس وقت مولانا کی عمر ۱۶ برس تھی، خود مولانا سندھی کا اپنے شیخ کے بارے میں فرمان ہے۔
‘‘اللہ کی خاص رحمت ہے جس طرح ابتدائی عمر میں اسلام کی سمجھ آسان ہوگئی اس طرح خاص رحمت کا اثر یہ بھی ہے کہ سندھ میں حافظ محمد صدیق صاحب بھرچونڈی کی خدمت میں پہنچ گیا جو اپنے وقت کے جید اور سید العارفین تھے ، چند ماہ ان کی صحبت میں رہا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشرت میرے لیے طبیعت ثانیہ بن گئی ہے جس طرح ایک پیدائشی مسلمان ہوتی ہے میں نے قادری راشدی طریقہ میں ان سے بیعت کرلی تھی’’۔
(کابل میں سات سال، از عبید اللہ سندھی ، ص ۹۶)
حضرت حافظ صاحب قبلہ میں ۷۴ سال کی عمر میں ۱۳۰۸ھ میں وفات پائی آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق بھر چونڈی شریف میں مسجد کے جنوبی چبوترے پر دفن کیا گیا روضہ شریف وفات کے دوسال بعد سجادہ نشین صاحب نے تعمیر کرایا۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )