حضرت شیخ مجد الدین بغدادی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت ابو سعید ہے اور آپ کا نام مجد الدین شرف بن موید بن ابی الفتح بغدادی رحمتہ اللہ علیہ ہے۔آپ دراصل بغداد کے رہنے والے ہیں۔خوارزم شاہ نے خلیفہ بغداد سے کوئی طبیب مانگا،تو اس نے آپ کے والد کو بھیج دیا۔بعض کہتے ہیں کہ آپ بغداد کشت سے ہیں،جو کہ خوارزم کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔وہ سلطان کے مقربوں میں تھے۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ امرد بے ریشہ تھے۔جب شیخ کی خدمت میں پہنچے ۔یہ خلاف واقع ہے وہ پورے مرد تھے۔لیکن ویسے خوبصورت تھے۔اول شیخ نے ان کو وضو کے پانی کے بھرنے کی خدمت میں مشغول رکھا۔ان کی والدہ نے سنا وہ طیبہ تھیں۔شیخ بھی طیب تھے۔ان کی والدہ نے کسی کو شیخ کے پاس بھیجا کہ فرزند مجد الدین ایک نازک آدمی ہے یہ کام اس سے مشکل ہوگا۔اگر آپ فرمائیں تو میں دس گلام ترکی بھیج دیتی ہوںکہ وہ پانی کی خدمت کریں گے۔آپ اس کو کسی دوسری خدمت پر مقرر فرمائیں۔شیخ نے فرمایا کہ اس سے جا کر کہہ دو کہ یہ تمہاری عجیب بات ہے ۔علم طب پڑھی ہو۔تم جانتی ہو کہ اگر تمہارے بیٹے کو صفراوی تپ ہو تو میں اس کی دواتر کی غلامی کردوں۔تو تیرا بیٹا کب تندرست ہوگا۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کہتے ہیں کہ ایکدن سلطان بایزید ؒ کے مریدوں میں سے ایک مرید نے جو کہ مرد تجربہ کار تھا۔مجھ سے کہا کہ تم نے کیونکر اس خاندان سے ارادت و عقیدت کی اور بایزد کے مطابعت کے بغیر سلوک میں چلے۔میں نے کہا مجھے یہ معلوم نہیں۔لیکن میں ایک دفعہ وضو کررہا تھا۔اس اثنا میں میں نے دیکھا"قبلہ کی دیوار پھٹ گئی ہے اور دوسری طرف ایک میدان ظاہر ہوا ہے۔آسمان اور ستارہ مشتری نظر آتا تھا۔میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ایک نے کہا کہ یہ نور سلطان بایزید کا ہے۔ایک گھڑی ہوئی تو ایک دوسرا آسمان دیکھا کہ تمام نورانی ہے۔آفتاب کی طرح روشن ہے۔میں نے کہا یہ کیا ہے۔کسینے کہا"یہ نور مجدالدین بغدادی کا ہے وہ درویش یہ سن کر تعجب کر نے لگا۔اس کے بعد کہا کہ میں یہ با ت اس لیے نہیں کہہرہا ہوں کہ ان کے مراتب بیان کر رہا ہوں یا میں شیخ مجدالدین کو سلطان بایزید پر ترجیح دیتا ہوں۔لیکن ہر ایک کو خدا تعالٰی نے ایک مشرب و مذہب کے حوالہ کردیا ہے۔جبکہ اس نے اس مشرب کی طرف توجہ کی اور اس طریق کا تابع ہوا۔حق تعالٰی نے اس کے قدم ثابت کرنے کے لیے اسی شیخ کے طریق میں اعلٰیمرتبہ میں اس پر جلوہ کیا ہے۔ورنہ خصوصاً قیامت میں مراتب ظاہرہوں گے اور بلندمرتبہ کی نشانی اس جہان میں سوائےمطابعت حبیب مطلق ﷺ کی نہیں ہو سکتی ۔ جس شخص کو اس کی مطابعت بڑھ کر ہے اس کا مرتبہ بڑھ کر ہے۔ایک مرتبہ شیخ مجددالدین درویشوں کے ساتھ بیٹھے ہوئےتھےکہ آپ پر سکر غالب ہواکہا کہ ہم ایک بطخ کا انڈہ تھے دریا کے کنارے پر اور ہمارا شیخ نجم الدین ایک مرغ تھا تربیت کے پر ہم پر ڈالے،یہاں تک کہ ہم انڈے میں سے باہر آئے۔ہم بطخ کے بچے کی طرح دریا میں چلے گئےاور شیخ کنارے پر رہا ۔شیخ نجم الدین نے اسکو کرامت کے نور سے معلوم کرلیا۔آپکی زبان پر گزرا کہ دریا میں جاتا ہے۔
شیخ مجددالدین یہ بات سن کر ڈر گئے اور شیخ سعد ہموی کے پاس آئےاور بہت عاجزی کی کہ جس روزشیخ کا وقت خوش ہومجھے اطلاع دینا تا کہ میں ان کے حضور میں آؤں اور عذر کروں۔شیخ کا سماع میں حالخوش ہوا،شیخ سعد الدین نے شیخ مجددالدین کو خبر کی کہ شیخ مجددالدین ننگے پاؤں آئےاور طشت آگ سے بھر لیا اور سر پر رکھ لیا اور جوتیوں کے موقع پر کھڑے ہوگئے۔شیخ نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جب درویشوں کے طریقے پر پریشان بات کا عذر چاہتا ہے۔ایمان و دین سلامت لے جائے گا لیکن تمہارا سر جاتا رہے گااور ہم تیرے سر کے ساتھ سر دیں گے،سرداروں اور بادشاہ خوارزم کا سر بھی تیرے سر کے پیچھے جائےگااور جہاں خراب ہوگا۔شیخ مجددالدین قدموں میں گر پڑےاور تھوڑے عرصہ میں شیخ کی بات ظاہر ہوگئی۔شیخ مجدد الدین خوارزم میں وعظ کہتے تھے اور سلطان محمد کی ماں ایک خوبصورت عورت تھی شیخ مجدد الدین کے وعظ میں آئی،کبھی کبھی ان کی زیارت کو جایا کرتی تھی۔مخالفوں نے موقع ڈھونڈا یہاں تک کہ ایک رات سلطان محمد نہایت نشہ میں مست تھا اس وقت ان کے سامنے بیان کیا کہ آپ کی والدہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شیخ مجدد الدین کے نکاح میں آگئی ہیں سلطان ناراض ہوگیا اور حکم دیا کہ شیخ کو دریا ئے دجلہ میں گرا دیں۔یہ خبر شیخ نجم الدین کو پہنچی تو انکی حالت بدل گئی اور کہا انا للہ وانا الیہ راجعون مجددالدین کے فرزند کو دجلہ میں گرا دیا گیاحتی کہ وہ مرگیاپھر سجدے میں سر رکھا اور دیر تک سجدے میں رہے،پھر سجدے سے سر اٹھایا اور کہا کہ میں خدا سے درخواست کی ہے کہمیرے فرزند کے خون بہا کے بدلے میں سلطان محمد کا ملک لےلے۔خدا نے میری دعا قبول کی ہے اور پھر اس بات کی خبر سلطان کو دی گئی،تب تو بہت ہی پشیمان ہواپیادہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا ایک طشت سونے کا بھرا ہوا لایا۔تلوار اور کفن اس پر رکھا ہوا اور سر ننگا کیے ہوئے،جوتیوں کے صف میں کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اگر عوض خون چاہیے تو یہ زر موجود ہےاور اگر قصاص چاہتے ہوتو یہ تلوار موجود ہے۔شیخ نے فرمایا کان ذالک فی الکتاب مسطور یعنی یہ بات تولوح محفوظ میں پہلے ہی سے لکھی گئی ہےاسکا خون بہا تیرا ملک ہے اور تیرا سر جاتا رہیگا۔بلکہ بہت سی مخلوق کے سر اور ہمارا سر بھی تمہارے سروں کے ساتھ جائے گا۔سلطان محمد نا امید ہو کر واپس چلا گیا،اور عنقریب چنگیز خان نے خروج کیا،اور گزرا جو کچھ گزرا ،ایک قوال نے شیخ مجد الدین کی مجلس میں یہ شعر پڑھا:
خوش یافتہ اند در ازل جامہ عشق گریک خط سبز برکنارش بودے
شیخ نے اپنی داڑھی پکڑی اور تلوار کو اپنے گلے پر رکھا،اور کہا،گریک خط سرخ برکنارش بودے۔بے شک اس سے اپنی شہادت کااشارہ کیا تھا۔اس کے بعد یہ رباعی پرھی۔رباعی:
دربحر محیط غوطہ خواہم خورون یا غرق شدن یا گہرے آورون
کارتو محاظر است خواہم کرون یا سرخ کنم روئے زتو یا گردن
شیخ نجم الدین کی خدمت میں ایک درویش تھا۔موضع بسکر آباد کا رہنے والا۔اس کو ایک بسکروی کہا کرتے تھے۔والی مقام تک پہنچ چکا تھا۔یہاں تک کہ جب تک وہ خلوت سے باہر نہ آتا تھا۔سماع کی مجلس ختم نہ ہوتی تھی۔ایک دن سماع کی حالت میں اس کا دل خوش ہوا۔زمین سے اٹھا،اور وہاں پر ایک اونچا طاق تھا۔اس طاق پر جا بیٹھا۔اوپرسے اترنے کے وقت شیخ مجدالدین کی گردن پر آ کودا،اور پاؤں نیچے لٹکا دئیے۔شیخ مجد الدین ویسے ہی چکر لیتے تھے یہ حبشی مرد بڑا اونچا اور وزنی تھا۔شیخ مجد الدین بڑے نازک لطیف تھے۔جب سماع سے فارغ ہوئے تو شیخ نے فرمایا،مجھے معلوم نہیں ہواکہ میری گردن پر زنگی ہے یا کوئی چڑیا ہے جب وہ گردن سے اترا تو آپ کے رخسار کو دانتوں سے کاٹا۔چنانچہ اس کا نشان ہوگیا۔بارہا شیخ مجدالدین نے فرمایاکہ مجھ کو قیامت میں یہی بڑا فخر ہوگاکہ زنگی کے دانتوں کا اثر میرے چہرہ پر ہوگا۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ شیخ مجد الدین بغدادی نے فرمایا ہے کہ میں نے خواب میں حضرت رسالت پناہ ﷺ سے پوچھا،مایقول فی حق ابن سینا قال صلے اللہ علیہ وسلم ھو رجل ارادان یصلی اللہ بلاواسطی فحجۃ بیدی ھکذا فسقط فی النار یعنی آپ ابن سینا کے حق میں کیا فرماتے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک مرد تھاجس نے ارادہ کیا تھاکہ میرے واسطہ کے بگیر خدا تک پہنچے ۔سو میں نےاس کے اپنے ہاتھ سے روک دیا۔اس طرح حتی کہ دوزخ میں گرگیا۔میں نےیہ حکایت استاد مولانا جلال الدین چلپی کے سامنے بیان کی تو انہوں نے اس پر تعجب ظاہر کیا۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میں بغداد سے شام کو جاتا تھاکہ وہاں سے روم کو جاؤں۔جب موصل تک پہنچا تو ایک رات رسجد جامع میں تھا۔جب میں سو گیا تو میں نے دیکھا ،کہ کوئی شخص کہتا ہے وہاں نہیں جاتے ہو کہ فائدہ حاصل کرو۔میں نے دیکھا تو ایک جماعت حلقہ مار کر بیٹھی ہوئی تھی۔ایک شخص ان کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔جن کا نور ان کے سامنے لے کر آسمان تک پہنچا تھا وہ باتیں کر رہے تھے،اور سب سن رہے تھے۔میں نے کہا،یہ حضرت کون ہیں۔لوگوں نے کہاکہ مصطفی ﷺ ہیں۔آگے بڑھا اور سلام عرض کیا:
آپ نے جواب دیا اور حلقہ میں جگہ دی۔جب میں بیٹھ گیا تو میں نے پوچھا،یا رسول اللہ ماتقول فی حق ابن سینایعنی آپ بو علی سینا کے حق میں کیا فرماتے ہیں؟آپ نے فرمایا،ضل اضلہ اللہ تعالی علی علم۔ یعنی وہ شخص ہے جس کو خدائے تعالی نے باوجود علم کے گمراہ کردیا۔پھر میں نے پوچھا،ماتقول فی حق شھاب الدین مقتول۔ یعنی آپ شھاب الدین مقتول کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔فرمایا،ھو من متعبیہ۔یعنی وہ اسکےتابع ہے۔اس کے بعد میں نے علمائے اسلام کی بابت پوچھنا شروع کیا۔ماتقول فی حق فخر الدین رازی۔یعنی فخر الدین رازی کے حق میں کیا فرماتے ہو۔فرمایا،ھور جل معاتبہ۔یعنی وہ مرد جس پر عتاب کیا گیا ہے ۔پھر میں نے عرض کی:ما تقول فی حق حجۃ الا سلام محمد الغزالی ۔یعنی حجتہ الاسلام امام غزالی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔فرمایا،ھور جل وصل الی مقصودہ یعنی وہ ایک شخص ہے جو کہ اپنے مقصود تک پہنچ گیا ہے۔پھر میں نے پوچھا،ما تقول گی حق امام الحرمین ۔یعنی آپ امام لحرمین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔فرمایا ھو ممن تصر دینی۔یعنی وہ شخص ہےجس نے میرے دین کی حمایت کی ہےپھر میں نے پوچھا،ماتقول فی حق ابی الحسن الاشعری۔یعنی امام ابوالحسن اشعری کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا،انا قلت وقولی صدق الایمان یمان والحکمتہ یمانیۃ۔یعنی میں پہلے کہہ چکا ہوں،اور میری بات سچی ہے کہ ایمان یمن والوں کاہو اور حکمت یمانی ہے۔اس کے بعد ایک شخص نے جو میرے نزدیک بیٹھا تھا،مجھ سے کہا،کہ ان سوالات کو کیوں کرتا ہے۔دعا کے لیے درخواست کرکے جس سے تمہارا فائدہ ہو۔اس کے بعد میں نے عرض کیا،کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی دعا سکھلائیے۔آپ نے فرمایا،کہو:اللھم تب علی حتی اتوب و اعصمنی حتی لا اعود و جبب الی الطاعات و کرہ الی الخطئات۔یعنی اے پروردگار میری طرف متوجہ ہو ،یہاں تک کہ میں توبہ کرو اور مجھ کو بچا لے ۔یہاں تک کہ پھر گناہ نہ کروں۔مجھے عبادت کی محبت اور گناہوں کی کراہت دے۔
اس کےبعد مجھ سے حضور نے پوچھا کہ کہا ں جاتے ہو۔میں نے عرض کیا کہ روم کی طرف۔فرمایا:الروم مادخلہ المعصوم۔یعنی روم میں معصوم داخل نہیں ہوتا۔جب میں اس خواب سے بیدار ہوا۔وہاں ایک بالا خانہ تھا۔جس میں مولانا موفق الدین کواشی رہتے تھےاور آخر عمر میں نابینا ہو گئےتھے۔میں ان کی زیارت کو گیا۔پوچھاکہ تم کون ہو ں میں نے بتایا"پوچھاکہاں سے آتے ہو۔میں نے کہا"بغداد سے۔پوچھا اب کہاں جاؤ گے؟میں نے کہا"روم کو۔کہاروم کو جاتےہو۔میں نے کہا"ہاں۔کہا:الروم مادخلہ المعصوم جب انہوں نے یہ کلمہ کہا"تو میں بڑاتعجب کرنے لگا۔میں نے کہا کہ شاید آپ کل کی مجلس میں موجود تھے۔کہا دعنی دعنی یعنی مجھے چھوڑ مجھے چھوڑ۔یعنی یہ بات نہ پوچھ۔آخر میں نے ان کا پیچھا چھوڑا"اور واپس آیا۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مولانا جمال الدین ایک بزرگ مرد تھے۔جن کی مشہورتصانف علوم میں بہت ہیں۔ان میں اور امام غزالی میں دو واسطوں سے زیادہ نہیں ہے۔اس کی یہ حکایت شیخ مجدالدین کی خواب کی صحت کی دلیل ہے۔جب شیخ مجد الدین کو ۶۰۷ھ اور بعض کے نزدیک ۶۱۰ھ میں شہید کر دیا گیا"اور ان کی بیوی جو کہ نیشاپور کی تھیں ان کو وہاں سے لے گئیں اور ۶۱۰ھ کو ان کو اسفراین میں لے گئے۔
(نفحاتُ الاُنس)