حضرت نوح مخدوم ہالائی علیہ الرحمۃ
و۹۱۱ھ ف ۹۹۸ھ
آپ کا اسم گرامی لطف اللہ اور لقب مخدوم نوح ہے، والد کا نام نعمت اللہ ہے، آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےجاملتا ہے ۔آپ کے جد اعلیٰ شیخ ابو بکر کتابی سب سے پہلے کوٹ کروڑ (حدودملتانی) میں آکر آباد ہوئے۔
حضرت مخدوم نو ح کی ولادت باسعادت ۹۱۱ھ میں ہالہ میں ہوئی آپ کی کرامات بچپن ہی سے ظاہر ہوگئی تھیں جن سے آپ کا مادر زاد ولی ہونا ثابت ہوگیا، منقول ہے کہ پیدائش کے ساتویں ورز قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی، آپ جھولے میں ارام کر رہے تھے جب اذان ختم ہوئی تو آپ نے بہ زبان فصیح کہا ‘‘نعم لا الٰہ اللہ ولا نعبد الا ایاہ مخلصین لہ الدین’’
اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم لدنی کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا، آپ کا شمار سندھ کے سر کردہ اولیاء کرام میں ہوتا ہے، ہر شخص سے اس کے حسب حال از خودہی گفتگو کا آغاز فرماتے اور برمحل قرآنی اآیات سے استدلال فرماتے ، قرآن مجید کے معانی اور مطالب اس انداز سے بیان فرماتے کہ جید علماء کرام بھی دم بخود رہ جاتے، بزرگان دین کے احوال وآثار کا ذکر ایسے پر تاثیر انداز میں فرماتے کہ سامعین کو رجوع الی اللہ کی دولت حاصل ہوجاتی تھی۔
تمام وتق یاد الٰہی اور عبادت میں گذرتا تھا ، بے حد متو کل اور قناعت پسند تھے، مال دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ حضرت غوث پاک کی اولاد میں سے ایک صاحب حاضر خدمت ہوئے اور کہا میں آپ کو خلافت دینے اور فائدہ پہنچانے کے لیے ایا ہوں، میں کیمیا بھی جانتا ہوں اگر آپ چاہیں تو آپ کو کیمیاسکھا سکتا ہوں جو شاید کسی وقت آپ کے کام آئے۔ آپ نے فرمایا جس روزے سے بارگاہ نبوی کی خدمت سے مشرف ہوا ہوں وہ دنیا کی ہوس دل سے نکل گئی ہے، ی کہ کر ایک درہم منگوایا اس پر مٹی ملی تو وہ بالکل سونا بن گیا۔ اپنی معمولی سے معمولی ضرورتوں میں بھی کسی سے سوال نہیں کرتے تھے۔
بے حد مستجاب الدعوات تھے منقول ہے کہ ایک مرتبہ بادشاہ دہلی کی طرف سے سندھ کو فتح کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجا گیا لوگوں نے آپ کو اطلاع دی آپ نے فرمایا انشاء اللہ انجام بخیر ہوگا یہاں تک کہ وہ لشک قرب و جوار کو تاخت و تاراج کرتا ہوا ہالہ پہنچ گیا ، اہل ہالہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حالات عرض کیے، فرمایا تھوڑی سی مٹی لاو، مٹی لائی گئی تو آپ نے اس پر یہ دعا پڑھی:
‘‘اللھم کل الحمد ولک المججد ولک الشکر والیک المتکاء وانت المستعان وعلیک التکلان ومنک الفرج ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العظیم وصلی اللہ علٰی خیر خلقہ محمد والہ واصحبہ اجمعین برحمتک یا ارحم رالراحمین’’۔
یہ کہہ کر آپ نے مٹی اس لشکر کی طرف پھینکی کہتے ہیں کہ لشکر اس طرح بھاگا کہ اپنے ملک تک دو روز تک ایک جگہ نہ ٹھر سکا اور اپنا بہت سا اسباب اور سامان چھوڑ گیا۔
حضرت مخدوم نوح ستاسی سال کی عمر میں ۲۷ ذی قعدہ ۹۸۸ھ کو واصل الی اللہ ہوئے، آپ کا مزار پر انوار ہالہ کندی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
(حدیقۃ الاولیاء)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )