حضرت امام الدین مجددی شکار پوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
خواجہ امام الدین مجددی شکار پوری ولد خواجہ نظام الدین ولد خواجہ غلام محی الدین ولد خواجہ نظام الدین ، خواجہ صاحب اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی مسندِ ارشاد پر متمکن ہوئے، ہزاری دروازہ شکار پور کے باہر اپنی خانقاہ میں خلقِ خدا کی رہبری کے فرائض انجام دینا شروع کیے ، یہاں ہمہ وقت علماو اولیا کی محفلیں قائم رہتی تھیں، خواجہ صاحب کی زبان میں تاثیر تھی کہ ہندو او رمسلم یک ساں طورپر آپ کے عقیدت مند تھے۔ ۱۲۹۲ھ میں اپنے صاحبزادوں پیر شمس الدین پیر نور الدین اور بہت سے مریدوں کے ہمراہ سفرِ حج پر روانہ ہوئے، جب مکہ معظّمہ پہنچے تو وہاں خواجہ محمد عمر جان بغدادی اور مدینےمیں خواجہ مظہر جان مجددی خواجہ صاحب کا سرکاری طور پر شان دار استقبال ہوا۔ آپ نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو حضرت خواجہ محمد مظہر نقشبندی سے بیعت کرایا، خواجہ محمد مظہر کا دستور تھا کہ وہ نصف شب کے بعد روزانہ پابندی سے غسل کرتے مسجدِ نبوی شریف میں حاضر ہوکر نمازِ تہجد ادا فرماتے، پھر روضے کے قریب پانچ پارے قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے، صبح کی نماز اور اشراق کی نماز سے فارغ ہوکر گھر جاکر آرام کرتے ، اس تمام اثنا میں ترکی کی حکومت آپ کی خاطر روشنی وغیرہ کاپورا بندو بست رکھتی تھی۔
(’’تذکرۂ مشاہیرِ سندھ‘‘، ص ۱۷۰)
حرمینِ طیبین سے واپسی پر جب کشتی لکی پر پہنچی تو تمام احباب سے فرمایا ’’الوداع‘‘ اور یہ کہہ کر کلمہ پڑھا، کلمۂ طیّبہ پڑھتے ہی جان،جاں آفریں کے سپرد کردی ، یہ واقعہ ۱۲۹۴ھ کا ہے۔ اس وقت آپ کو لکی کے پہاڑ میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ چھ ماہ بعد ان کے بڑے صاحبزادے ان کے جسدِ اطہر کو پہاڑ سے نکال کر لے آئے، شکار پور کے ہزاروں عقید ت مندوں نے ایک میل لمبے جلوس کی شکل میں میّت کا استقبال کیا۔ چھ ماہ گزرنے کے باوجود آپ کا جسم صحیح و سالم نکلا ، آپ کو آپ کے والد خواجہ نظام الدین کے مقبرہ واقع لکی دروازہ شکار پور میں دفن کردیا۔
(’’تذکرہ مشاہیرِ سندھ‘‘، ص۱۷۱)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )