حضرت چھتہ پیر
سرزمین سندھ میں پیر چھتہ نامی کئی بزرگ ہوئے ہیں، ہم ان سب کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں ایک بزرگ بنام چھتہ کا مزار میر میتن الدین خان کی حویلی کے پاس ٹھٹھہ میں ہے۔
(تحفۃ الطاہرین ص ۱۱۶)
ایک پیر چھتہ وہ ہیں جن کا مزار فیض انار ٹھٹھہ کے بھائیخان محلہ میں ہے۔
(ٹحفۃ الطاہرین ص ۱۳۸)
ایک پیر چھتہ کا مزار مخدرات ابدالیہ کےقریب محلہ قند سے میں ہیں۔ آپ نے اپنے بھائی چھوتہ سے کسب فیض حاصل کیا تھا ، جن کا مزار آپ کے قریب ہی ہے۔
(تحفۃ الطاہرین ص ۱۵۵)
ایک پیر چھتہ سموں کے دور میں ہوئے ہیں اس دور میں ساموئی نو آباد شہر تھا لیکن ٹھٹھہ کی زمین باغات میں گھری ہوئی تھی ، پیر چھتہ صاحب حج بیت اللہ سے واپس ہوئے تو سیر کرتے کراتے ان باغات میں آگئے یہاں ایک باغ حسن و جمال میں مشہور تھا جس کا نام باغ مشکیاں تھا اس میں سکونت اختیار کی اور یہیں یاد خاد میں مشغول ہوگئے، اتفاقاً جام صاحب کی لڑکی اس باغ میں سیر کو آئی تو حضرت کی عقیدت مند ہوگئی، مگر شریر النفس لوگوں نے اس عقیدت و ارات کو دوسرے معنی پہنا کر جام صاحب سے شکایت کی تو جام نے آپ کو شہید کرا دیا۔ آپ کامزار اسی شہادت گاہ پر واقع ہے ۔ اور لوگوں کی حاجات روائی کا مرکز ہے، یہ جگہ ٹھٹھہ کے محلہ مسگر میں ہے۔ ٹھٹھہ کے ہی محلہ تھتی میں ایک پیر چھتہ ہوئے ہیں۔ یہ بڑے صاحب کرامت تھے، نماز عشاء کے بعد صحرامیں جاکر مشغول عبادت ہوجایا کرتے تھے، قلعہ ارک جو اب مسجد شاہجہانی کے سامنے ایک میدان بن کر رہ گیا ہے، میں بھی پیر چھتہ ایک بزرگ کا مزار ہے، جو کوئی مصیبت میں صبح صادق کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اپنی حاجت پیش کرتا اس کی حاجت رواہوتی ان کےمزار پر بچے کھیلا کرتے ہیں اور سواری کرتے ہیں۔ ایک شخص نے ان کو منع کیا تو خواب مین آپنے اس شخص کو ملامت کی، ایک پیر چھتہ جو صاحب کرامت تھے کا مزار قصابوں کے پڑوس میں خواجہ شکر کے محلہ میں ٹھٹھہ میں ہے، ایک بزرگ چھتہ لال نامی ہوئے ہیں، یہ ذات کے سیدتھے، ان کے والد کا نام وجیہہ الدین حسینی تھا، ٹھٹھہ کے قند سر محلہ میں مزار ہے۔
(تحفۃ الطاہرین ص ۱۶۰،۱۶۲،۱۶۵)
ایک پیر لال چھتہ نامی صاحب حال و کمال ٹھٹھہ کے محلہ ستھیہ میں مدفون ہیں ، رحمہم اللہ اجمعین
(تحفۃ الکرام ص ۱۶۷و تحفۃ الطاہرین ص ۹۱)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )