پیر کرم شاہ سہروردی رحمتہ اللہ علیہ
آپ کو عرف عام میں مستا شاہ بھی کہاجاتا ہے،قریشی حارثی ہنکاری تھے اور سہر وردی سلسلہ عالیہ کے ایک نامور بزرگ تھے،خاندان سہروردیہ میں بیعت تھے مرشدی و نسبی سلسلہ حضرت عبد الجلیل چوہڑ بندگی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔
شیخ کرم شاہ بن شیخ ابو لفتح بن شیخ ابو الحسین بن یشخ فخر الدین بن شیخ ابو لفتح بن شیخ بر خو ردار بن شیخ ابو الفتح بن شیخ عبد الجلیل چوہڑ بندگی
زہدو عبادت کے ولدادہ تھے اور بہت سا وقت یا دالہیٰ میں گزارتے تھے، بیعت آپ نے اپنے والد شیخ ابو الفتح رحمتہ اللہ علیہ سے کی تھی،آپ لاہور میں رہائش پذیر تھے کہ سکھوں کی غارت گری سے تنگ آکر لکھنؤ چلے گئے اور کئی سال اپنے نانا شیخ نور الحسن قریشی کے پاس مقیم رہے۔ واپسی کے وقت راستے میں راہز نوں کے ہاتھوں شاہجہان پور کے نزدیک شہید ہوئے، سکھوں نے اس زمانہ میں لاہور میں غار تگری میں وہ ادھم مچائی تھی کہ الامان و الحفیظ اور اس وجہ سے آپ نے ہجرت فرمائی تھی۔
لاہور کی حالت زار:
آپ کے وقت لاہور کی حالت سکھوں کی غارت گری کی وجہ سے نہایت ابتر تھی، اس سنگد ل اور ظالم نے اہل اسلام کے اکابر کے مزا رات تک کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھی تھی، شہنشاہ جہانگیر ،نواب آصف خان، نواب میاں خان،نواب علی مردان خان اور ملکہ نور جہاں کے مقابر کے سنگ مرمر اور سنگ موسیٰ اتار کر ننگا کردیا ملکہ نور جہاں اور نواب معین الملک کے تابو ت ہی نکال لیئے گئے اور لاشیں گڑ ھوں میں پھینک دی گئیں، مساجد اور مقابر میں با رود بھر دیا گیا اور کچھ کو اصطبل بنا لیا گیا، انار کلی،مقبرہ جہانگیر کو جنرل ونٹو رہ فرانسیسی جرنیل کی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا گیا، مقبرہ صالح محمد کنبو ہ ایک پادری کے حوالے کردیا گیا جہاں آج عیسا ئیوں کا سکول ہے، بادشاہی مسجد کو اصطبل بنادیا گیا، تمام مساجد میں آذان کی مما نعت تھی۔
اولاد:
پیر سکندر شاہ،پیر مراد شاہ، پیر قلندر شاہ، پیر فرح بخش فرحت۔
وفات:
آپ ۱۲۰۱ھ مطابق ۱۷۸۶ء میں شا ہجہا ن پور کے نزدیک قز اقو ں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)