شیخ الاسلام حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم ِگرامی:شیخ میر محمد۔کنیت: میاں میر۔القابات: شیخ الاسلام،آفتاب اولیاء،غوث وجنید ثانی،میاں جیو۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ الاسلام میاں میر بن قاضی سائیں دتافاروقی بن قاضی قلندر فاروقی۔علیہم الرحمہ۔آپ کےوالد گرامی قاضی سائیں دتہ فاروقی اپنے علم وفضل، تقویٰ وتقدس کی بناء پر نہ صرف سیہون شریف بلکہ پورے سندھ میں ممتاز مانےجاتےتھے۔آپ کےجدِ بزرگوار قاضی قلندر فاروقی جید عالم اور صوفی منش بزرگ تھے۔آپ کاسلسلۂ نسب اٹھائیس واسطوں سےامیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابسےجاکر ملتاہے۔آپ کی والدہ محترمہ کا نام فاطمہ تھا۔جو قاضی قادن کی لختِ جگر اور رابعہ ثانی تھیں۔(سکینۃ الاولیاء:36/صوفیائے پنجاب:565)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 957ھ مطابق 1550ء اکثر تذکرہ نگاروں نےتحریرکی ہے۔شہزادہ دارا شکوہ نے938ھ/1531ء سکینۃ الاولیاء میں لکھی ہے۔مقام ِ ولادت سیوستان موجودہ’’سیہون شریف‘‘ضلع جام شورو، سندھ پاکستان ہے۔
تحصیلِ علم: جب حضرت میاں میر کی عمر سات سال کی ہوئی تو والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری والدہ محترمہ پرآگئی۔آپ کی والدہ محترمہ زاہدہ عابدہ اور وقت کی رابعہ تھیں۔ابتدائی تعلیم وتربیت والدہ کی زیر نگرانی ہوئی۔انہوں نےتعلیم ِ ظاہری کےساتھ ساتھ باطنی تربیت، تزکیہ ٔ نفس پرخصوصی توجہ دی۔والدہ کی تربیت کانتیجہ تھا کہ کم عمری میں ہی میلان ِ طبیعت اللہ جل شانہ کی ذات کی طرف ہوگیا۔مجاہدات وریاضات میں ہمہ وقت مصروف رہتےتھے۔حضرت شیخ خضر سیوستانی کےزیر تربیت ایک عرصہ گزارا،اور پھر انہیں کی اجازت وحکم سے مزید علوم ِ ظاہری کے حصول کےلئے عازم لاہور ہوئے۔کیونکہ اس وقت لاہور علوم ومعارف کامرکز تھا۔بڑے بڑے علماء درس وتدریس کی مسندیں آراستہ کیے ہوئے تھے۔
اس وقت آپ کی عمر پچیس سال ہوچکی تھی۔ابتداء ً مسجدوں میں وقت گزارنے لگے۔اس وقت لاہور میں مولانا سعد اللہ کے علم وفضل کا شہرہ تھا۔ان کی خدمت میں حاضر ہوکرتعلیم میں مصروف ہوگئے۔تھوڑے ہی عرصے میں حضرت میاں میر علوم منقول ومعقول میں درجۂ کمال کو پہنچ گئے۔آپ اپنے ہم سبقوں پرعلمی اعتبار سےفائق تھے۔ان کے علاوہ مولانا عبدالسلام لاہوریمصنف حاشیہ بیضاوی جو اپنے وقت میں پورے ہندوستان میں فاضل اجل تھے،ان سےبھی علمی استفادہ کیا۔اسی مولانا سعد اللہ لاہوری کے تلمیذ رشید مولانا نعمت اللہ سے بھی ایک عرصے تک تحصیلِ علم کیا۔مولانا نعمت اللہ فرماتے تھے: ’’حضرت میاں میر میرے درس میں کئی سال تک رہے،اور میں نے انہیں پڑھایا اور ان کی رہنمائی کی۔ انہوں نے مجھ سے تمام علوم حاصل کیے۔لیکن اس عرصے میں ان کی حقیقتِ حال مجھ پر ظاہر نہ ہوسکی اور یہ ان کا کمالِ ستر ہے‘‘۔ (سکینۃ الاولیاء:42)اللہ اکبر! ہمارے اکابرین کیسے حقیقت پسند اور تصنع سے کوسوں دور رہنےوالےتھے۔
حضرت میاں میر ظاہری و باطنی علوم میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کرتے توعلماء و فضلا انگشت بد نداں رہ جاتے علم فقہ میں بھی کمال دسترس تھی لیکن اس تمام تر علمی تبحر اورثقاہت کے باوجود قیل و قال سے اجتناب فرماتے اور بحث و تمحیص سے گریزاں رہتے ۔آپ کے تبحر علمی کااندازہ اس واقعہ سےبخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ہندوستان میں روافض نہ ہونے کےبرابر تھے،عوام کوگمراہ کرنے کےلئے ملکہ نور جہاں اوراس کے بھائی آصف جاہ کی کوششوں سے سنی علماء کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ایران سے ایک مجتہد بلایا گیا۔ اس کو ہدایت کی گئی کہ وہ براستہ لاہور دہلی پہنچے۔کیونکہ لاہور میں اکثر صوفیاء رہتےتھے،اور ان کےزعم میں یہ تھا کہ صوفیاء جاہل ہوتےہیں،اوران کوشکست دینا آسان ہے۔ایرانی مجتہد اعظم دہلی جانے سے پہلے لاہور پہنچے جہاں حکم شاہی سے ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ انہیں ملاقات کے لیے حضرت میاں میر کی خدمت عالیہ میں لے جایاگیا۔ حضرت بڑے اخلاق سے ملے۔ گفتگو کے دوران آپ نے سرراہے ایرانی مجتہد ہے پوچھا۔کیاآپ کبھی کربلائے معلّی بھی حاضرہوئے؟جی ہاں اللہ کا شکر ہے کئی باریہ سعادت حاصل کر چکا ہوں، ایرانی عالم نے بڑی بشاشت سے جواب دیا۔حضرت میاں میر نے فرمایا : اس مقام کی کچھ فضیلت بیان فرما دیں۔ایرانی مجتہد کہنے لگے : ’’اس خاک پاک کی ایک ادنیٰ خاصیت یہ ہے کہ اس کے ارد گرد سات کوس تک دفن ہونے والے روزِ محشر بغیرحساب کے بہشت میں داخل ہوں گے۔حضرت نے فرمایا کیا آپ کے خیال میں ایسی فضیلت انبیاء کرام کے مزارات کو بھی حاصل ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں!پھر ایرانی مجتہدنے کہا۔ نبیوں کے مزارات کے ارد گرد دس کوس تک دفن ہونے والے بغیرحساب کتاب جنت میں جائیں گے۔اب حضرت نے فرمایا :اگر نبی مکرمﷺ کے مزاراقدس کے چاروں طرف دس کوس تک مدفون لوگ جنتی ہیں تو پھر ان دو بزرگوں کی بھی بخشش یقینی ہے جو سید عالم ﷺ کے پہلو میں دفن ہیں۔آپ کی یہ گفتگو سن کر ایرانی مجتہد مبہوت ہوگیا۔ اس سے کوئی جواب نہ بن آیا، اٹھ کرگورنر لاہورکےساتھ چلا گیا۔ اس نے کہا جب لاہور میں صوفیاء کےعلم کا یہ کمال ہے تو دارالحکومت دہلی میں کن علماء سے واسطہ پڑے گا۔ چنانچہ وہ لاہور سے ہی واپس ایران چلا گیا۔(تذکرہ حضرت میاں میر:86)
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں غوث ِ وقت حضرت خواجہ خضر سیوستانیسےبیعت ہوئے،اور مجاہدات وریاضات کے بعد خلافت سے مشرف کیے گئے۔اسی آپ غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کےاویسی تھے۔
سیرت وخصائص: آفتاب ِولایت،ماہتابِ صداقت،واقفِ اسرار ِوحدت،غوث وجنیدِ ثانی،شیخ الاسلام حضرت میاں میر۔ آپ اپنے وقت کے جید عالم وعارف اور قطبِ زماں تھے۔آپخاندانی طور پرایک علمی وروحانی خانوادے سےتعلق رکھتےتھے۔ آپ کا تعلق ان نفوس قدسیہ سے ہے جن کی سیرت وکردار مینارۂ نور ہے،اور ان کی تعلیمات کی روشنی قیامت تک دلوں کونور،اور دماغ کو سرور،اورمردہ دلوں کو حیاتِ نو عطا کرتی رہےگی۔موروثی طور پرسیدنا فاروق اعظم علمی جلالت وروحانی وقار کےمالک تھے۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے شہنشاہ آپ کی خدمت میں بڑی نیاز مندی سے حاضر ہوتے۔شان ِ بےنیازی کا اندازہ اس واقعے لگایا جاسکتا ہے۔کہ ایک دن اپنے درویشوں کے ساتھ سردیوں کے موسم میں اپنے حجرے کی چھت پر صبح کے وقت رونق افروز تھے۔آپ ایک درویش کی گود میں سر رکھ کرآرام فرمارہےتھے،اور باقی درویش اپنی گودڑیوں سےجوئیں نکالنے میں مصروف تھے۔اتنے میں ایک درویش نے شہنشاہ ہندوستان شاہ جہاں بادشاہ کو اپنے بڑے فرزند دارا شکوہ کےہمراہ حضرت کی زیارت کے لئے آتے دیکھاتو ہنس دیا۔آپ نےدرویش سے ہنسی اور خوشی کی وجہ پوچھی تو اس نے عرض کیا۔ کہ جناب بادشاہ شاہ جہاں اور دارا شکوہ آپ کی زیارت کےلئے آرہےہیں۔اس پر آپ نے فرمایا کہ ارےنادان! میں تو یہ سمجھاکہ تجھے اپنی گودڑی میں کوئی بڑی موٹی جوں مل گئی ہے۔جس سے تو خوش رہاہے۔بے وقوف بادشاہ کےآنے سےدانت دکھارہاہے۔غرض ان لوگوں کی نظر وں میں بادشاہ دنیا کی حقیقت جوں اور پسّو سے بھی کم تھی۔پھر بادشاہ ِ حقیقی اللہ جل شانہ کےنام ِ پاک کی ہیبت وحشمت اور عزت وعظمت ان کے وجود ِ مسعود میں اس قدر تھی کہ بادشاہ بھی تھر تھر کانپتےتھے،اور ان کی کفش برداری کو اپنے لیے سعادت اور فخرسمجھتےتھے۔شاہ جہاں کےآنے سے حضرت کی مجلس میں کوئی فرق نہیں آیا،جس طرح آرام فرماتھے،اسی حالت میں رہے۔بادشاہ حضرت کی قدم بوسی سےفارغ ہوکر ایک طرف کونے میں مسکینوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔اس وقت حضرت میاں میر الائچی خورد منہ میں چبا رہےتھے،اور اس کا فُضلہ اپنے منہ سےنکال کر تھوکتے جاتےتھے اور شاہ جہاں اسے بطور ِتبرک اپنی شاہی چادر کےایک کونے میں ہیروں اور جواہرات سےزیادہ قیمتی سمجھ کرجمع کرتےجاتےتھے۔یہ شاہ جہاں میاں میر کے حجرے میں آکر بیٹھ جاتا،اور کہتا کہ جتنا سکون مجھے اس ٹوٹی چھت والے حجرے کی ٹوٹی ہوئی صفوں پہ آتا ہے،ایسا سکون شاہی تخت پر نہیں آتا۔(شانِ مصطفیٰ بزبانِ مصطفیٰ:731)
حضرت میاں میر ورع، تقویٰ، ترک، تفرید، سیروسلوک، فتوح وکشائش میں ممتازتھے، آپ شریعت طریقت اورحقیقت سےآراستہ تھے۔آپ حقائق ومعارف کی وہ باتیں بیان فرماتے جوپہلےنہیں سنی گئی تھیں۔آپ کی تجرید کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ عصالےکردوتین قدم چلےہوں گےکہ عصا پھینک دیااورفرمایا:وہ شخص عصاپرکیوں سہارالے،جس نےحق سبحانہ تعالیٰ کاسہارالیاہے۔
حضرت میاں میر ہر اس کام سے پرہیز فرماتے جس میں ریاکاری یاحُبِ جاہ کا شائبہ تک ہوتا ۔آپ فرمایا کرتےتھے کہ حُبِ جاہ درویش کے لیے تباہی اور بربادی کا موجب ہے۔ فرمایا حب جاہ کودل سے نکالنا بڑا بھاری کام ہے۔ آپ اکثر اپنے خلفاء کو طلبِ شہرت اور حُبِ جاہ سے بچنے کی سخت تلقین فرماتے۔ (سکینۃ الاولیاء : 62)حضرت خواجہ بہاری آپ کے اکابر خلفاء میں سے تھے۔ ایک دن چنداحباب کے ساتھ گھر میں تشریف فرما تھے کہ چھت کی کڑیاں چڑچڑانے لگیں۔ انہوں نے دوستوں کوفوراًمکان سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا۔ وہ سب باہرچلے گئے لیکن خواجہ بہاری خود وہیں بیٹھے بلندآواز سے کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ اندازے کے مطابق چھت گرپڑی لیکن دوکڑیاں آپس میں جُڑگئیں اوراس تکون کے نیچے خواجہ بہاری محفوظ بیٹھے رہے۔یہ واقعہ جب حضرت میاں میر کی خدمت میں عرض کیا گیا تو فرمایا : ہائے! عزت اور جاہ کی طلب! کہ اس کاخیال مرتے وقت بھی نہ گیا۔کلمۂ طیبہ بلندآوازسے پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ لوگ سن لیں کہ بہاری موت کے وقت بھی خدا کویادکرتا رہا۔پھرفرمایا : اسے کلمہ طیبہ دل میں پڑھنا چاہیے تھا۔(تذکرہ حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ : 63)
حضرت میاں میرقادری کا کرامات کے حوالے سے وہی مؤقف تھا جو جلیل القدر صوفیائے متقدمین کا تھا۔ وہ بطورِخاص اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ ان کے مجاز اور خلفاء حضرات کرامت کے اظہارسے اجتناب کریں اور یوں شہرت اور نام و نمود سے بچنے کی کوشش کریں۔ وہ کشف و کرامت کے اظہار کو سالکِ راہِ طریقت کے لیے حجاب قرار دیتے تھے اور فرماتے’’کشف بر سر او کفش‘‘یعنی کشف کے سرپرجوتا۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء مراتب سلوک میں کرامت کا درجہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ’’خواجگانِ چشت کے نزدیک سلوک کے پندرہ درجے ہیں، ان میں پانچواں درجہ کشف و کرامت کا ہے۔ جو شخص اپنی ذات کو پانچویں درجہ میں ہویدا کرے گا وہ بقیہ دس درجوں کوحاصل نہ کر سکے گا‘‘۔(صوفیاء اور ان کا حسن اخلاق : 123)
اگر کوئی امیر نذرانہ کے لیے اصرار کرتا تو فرماتے : کیا تم نے مجھے فقیر سمجھ رکھا ہے؟ میں فقیر اور مستحق نہیں ہوں، غنی ہوں کیونکہ جوخدا کاہو جائے وہ فقیر نہیں ہوتا۔ یہ رقم لے جاؤ کسی مستحق کو دے دو۔(سکینۃ الاولیاء:43)شاہ جہاں جب پہلی مرتبہ حاضر ِخدمت ہوا تو خطیر رقم بطورنذرانہ پیش کی۔ آپ نے قبول کرنے سے انکارکر دیا۔ بادشاہ نے آپ کے ایک ہم عصر بزرگ حضرت شاہ بلاول کی خدمت میں حاضر ہو کر وہی رقم پیش کر دی۔ انہوں نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ حضرت میاں میر تومَلکی صفات ہیں (یعنی فرشتہ صفت ہیں) ان کی توجہ دنیا وی حکام کی طرف نہیں، ہمارے ہاں طلباء،مسافر اور درویشوں کے لئے لنگر جاری رہتا ہے اس کے لیے رقم کی ضرورت رہتی ہے۔شاہ جہاں جب دوبارہ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوا توحضرت شاہ بلاول کے نذرانہ قبول کرنے کا واقعہ بیان کر دیا۔ حضرت میاں میر نے فرمایا:’’شاہ بلاول ولی کامل ہیں وہ دریا کی مانند ہیں، میں ان کے سامنے ایک تالاب ہوں۔ دریا میں اگرکوئی چیز پڑجائے تو پلید نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں تالاب کی کیا حیثیت ہے۔(تذکرہ اولیائے پاکستان : 242)یہ واقعہ آپ کے استغنا اور تواضع کی روشن مثال ہے۔
حضرت میاں میرقادری نہایت سادہ اور کم قیمت لباس استعمال کرتے، سفید پگڑی کے ساتھ سفید کھدر کی قمیض اور تہبند زیب تن فرماتے۔ لباس اگرچہ کم قیمت ہوتا لیکن ہمیشہ صاف ستھرا رہتا۔ آپ دریا راوی پر جا کر اپنے کپڑے خود دھو لیا کرتے۔ کھانے پینے میں کبھی تکلف نہ فرمایا جو میسر ہوتا سب احباب کے ساتھ مل کر تناول فرما لیتے۔ رہائش بھی بالکل سادہ تھی۔ عمر بھر ایک پارینہ بوریہ زیر استعمال رہا۔ (سکینۃ الاولیاء:39) دنیاوی آسائشوں سے اس طرح بے نیاز رہے کہ سید عالم ﷺ کے ارشاد ’’الفقر فخری‘‘ کا کامل نمونہ نظر آتا تھا۔ آپ کےتوکل کایہ حال تھاکہ رات کےوقت کوزےکاپانی پھینک دیتےتھے،لوگوں سےالگ رہنا پسندفرماتےتھے،رات کوسوتےنہیں تھے،آپ بہت کم لوگوں کومریدکرتے تھے۔آپ کےفقروفاقہ کایہ حال تھاکہ کئی کئی روزتک بھوکےرہتے۔تیس سال تک آپ کےہاں کچھ نہ پکا،آپ کی خوراک بہت کم تھی،ہروقت استغراق کی حالت میں رہتےتھے۔خرقہ اورمرقع زیب تن نہیں فرماتےتھے،ایک معمولی کپڑے کی پگڑی سرپررکھتےاور موٹےکپڑے کاکرتہ پہنتےتھے۔آپ کےگھرمیں ایک پرانابوریابچھارہتاتھا،دنیااوردنیوی چیزوں سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں تھا۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے چند سکے بطور نذرانہ پیش کیے اس وقت مجلس میں شاہ جہاں کسی علاقے کی فتح کے لیے طلب دعا کی خاطر حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا : میاں! ہمیں ان سکوں کی ضرورت نہیں یہ تمہارے سامنے بادشاہ بیٹھا ہے۔ یہ سکے اسے دے دو کہ انہیں ان سکوں کی زیادہ ضرورت ہے انہیں کی خاطر وہ لشکر کشی کر کے قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس واقعہ کومثنوی اسرارخودی میں تفصیل سے بیان کیاہے۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:244)
تعلیمات: (1)سالک کےلئےسلوک میں پہلامرتبہ شریعت ہے۔طالب کےلئےضروری ہے کہ اس کے حفظ مراتب کی کوشش کرےاورجب کوشش سےاس مرتبےکوقائم کرےگاتوشریعت کےادائے حقوق کی برکت سےاس کےدل میں طریقت کی خواہش خودبخودپیداہوجائےگی اورجب طریقت کےحقوق کوبھی اچھی طرح سےاداکرےگاتواللہ تعالیٰ بشریت کےحجاب اس کی دلی آنکھوں سےدور کردےگااورحقیقت کےمعنی اس پر منکشف ہوجائیں گے،جوروح کےمتعلق ہے۔(2) حق کی طلب آسان نہیں،جب تک تم اس کی طلب میں یگانہ نہ ہوجاؤگے،اسےنہیں پاسکوگے۔(3)جس کااللہ ہو،وہ فقیرنہیں۔(4)صوفی جب کامل ہوجاتاہےاوراس کادل خطرے سے پاک ہوجاتاہےتواسےکوئی چیزضررنہیں دےسکتی۔(5)شریعت کےمعاملات کی نگہداشت مرتبہ طریقت کےحصول کاسبب ہےاورطریقت بری خصلتوں سےباطن کوپاک کرنےاورمرتبہ حقیقت کےادراک کاموجب ہےاورحقیقت کیاہے؟وجودکوفال بنانااوردل کوماسوااللہ سے خالی کرنا۔ (6)انسان تین چیزوں،نفس،دل اورروح کامجموعہ ہے،ان میں سےہرایک کی اصلاح خاص چیزسےہوتی ہے،چنانچہ نفس کی اصلاح شریعت سے،دل کی طریقت سےاورروح کی حقیقت سے۔(7)صوفی وجدکی حالت میں ہوتاہےتواپنی ہستی سےخالی ہوتاہےاوربقائے حق سےباقی۔(8)اولیاء کی موت ان کےنفس کامرناہےاورجب ان کانفس مرجاتاہےتوپھروہ ابدالاباد تک زندہ ہی رہتےہیں۔(9) اولیاءاللہ کاتصرف زندگی میں اورموت کےبعدیکساں ہوتاہے،بلکہ مرنےکےبعدزیادہ اوربہترہوتاہے۔(ایضا:246)
تاریخِ وصال: 7/ربیع الاول1045ھ،مطابق 21/اگست1635ء،بروز منگل واصل بااللہ ہوئے۔مزار پر انوار لاہور میں مرجعِ عام ہے۔آپ اکثرفرمایاکرتےتھے: کہ وفات کےبعدمجھےشورہ زمین میں دفن کرنا،تاکہ میری ہڈیوں تک کانام ونشان باقی نہ رہے اور نہ ہی قبرکی صورت بنانا۔آپ نےیہ بھی فرمایاکہ میری ہڈیوں کونہ بیچنااورمیری قبرپردوسروں کی طرح دوکان نہ بنالینا۔(تذکرہ اولیائے پاک وہند:243)
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ان الفاظ میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں:
حضرت شیخ میاں میر ولی۔۔۔۔ ہر خفی از نور جان او جلی
بر طریق مصطفیٰ محکم پئی۔۔۔۔۔نغمۂ عشق و محبت را نئی
تربتش ایمان خاکِ شہر ما۔۔۔۔ مشعل نور ِہدایت بہرِ ما